کہتے ہیں جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا اس لئے بہت سے لوگوں نے اس مقولے کے مطابق جنم لے رکھا ہے اور باقی جو ہیں وہ سب تیار بیٹھے ہیں تخت لاہور اور زندہ دلان لاہور کے بھی بہت چرچے رہتے ہیں اس بات میں شک نہیں کہ تخت لاہور پر حکمرانی کی خواہش بہت سے دلوں میں مچلتی رہتی ہے اور جب لاہور جاگ جائے گویا سارا لاہور جاگ جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ بھی بلاشبہ زندہ دلان ہیں یہاں کی قدیم تاریخی عمارات و مقامات کے ساتھ روایتی کھانے بھی مشہور لاہوری کھانوں کے دلدادہ یہاں کے کھابے کھانے دور دراز کا سفر کر کے یہاں آ تے ہیں اب تو لاہور کا سفر آ سان اور فاصلے گھٹ کے رہ گیا ہے۔
لاہور کی قدیم علمی و ادبی روایات بھی خوب پھل پھول رہی ہیں یہاں کا ٹی ہاوس کبھی لاہوری ادیبوں شاعروں کا مستقل مسکن ہوا کرتا تھا دوسرے شہروں کے ادیب بھی ٹی ہاوس کی رونقوں سے لطف اندوز ہوتے ابھی موبائل ہاتھ کی زینت نہیں بنے تھے لاہور یاترا پر اصغر ندیم سید امجد اسلام امجد ڈاکٹر اجمل نیازی کرامت بخاری عارف عبد المتین اور تحسین فراقی سے اولین ملاقاتیں اسی دور میں ہوئی تھیں پروفیسر نسیم شاہد شاکر حسین شاکر اور رضی الدین رضی بھی اکٹر میرے ساتھ لاہور یاترا میں شریک ہوتے۔ منو بھائی منیر نیازی امجد اسلام امجد عطاء الحق قاسمی اور اصغر ندیم سید سے ان ملتانی دوستوں کو بھی پہلی بار متعارف کرایا لاہور کا ٹی ہاوس اھل قلم کی آماجگاہ تھا اسرار زیدی ٹی ہاوس کی ایک ٹیبل پر ہمہ وقت میسر تھے چائے کا دور جاری رہتا اور ان کی باتوں اور چائے سے ہر ملنے آ نے والا لطف اندوز ہوتا۔
لاہور کی علمی وادبی روایات کے کئی ادوار ہیں تخت لاہور کی حکمرانی کی طرح ادبی تخت پر بھی بہت سوں کی حکمرانی رہی کبھی یہ احمد ندیم قاسمی منو بھائی منیر نیازی اور اعزاز احمد آذر کے ادبی دور کا لاہور تھا ریوارز گارڈن میں منو بھائی اور ٹاون شپ میں منیر نیازی سے ملاقاتوں کا لاہور تھا منیر نیازی کے سائبان کے خصوصی شمارے کے لئے مجلس ترقی ادب کے دفتر میں محترم احمد ندیم قاسمی سے ملاقاتیں ہوتیں ریوارز گارڈن میں ستار طاہر سے نیاز مندی رہتی اب کی لاہور یاترا میں بزم کتاب دوستاں کے سید تاثیر نقوی اور ادب لطیف کے مدیر مظہر سلیم مجوکہ نے ستار طاہر مرحوم کی 84 ویں سالگرہ پر ایک بھرپور تقریب برپا کر ڈالی جس میں بیگم نگہت ستار طاہر ان کے بیٹے اور بیٹیوں سے ملاقات ہوئی۔ محترم مجیب الرحمٰن شامی فیروز کنول ڈاکٹر سعادت سعید ڈاکٹر امجد طفیل اعجاز رضوی افتخار بخاری بیدار سرمدی اور دیگر اھل قلم کی موجودگی نے باغ جناح کے کاسموپولیٹن کلب کی اس تقریب کو اعتبار بخشا۔
اس بار لاہور یاترا نے لاہور کے نئے ادبی منظر نامے کے مشاہدے کا بھی موقع فراہم کیا شاعر بے مثال شعیب بن عزیز کی محبتوں سے فضائیہ کلب میں چوہدری احسان شاہد کی تقریب میں محترم عطاء الحق قاسمی ڈاکٹر قیصر رفیق خالد عباس ڈار مدیر تخلیق سونان اظہر سرور سکھیرا حلقہ اربابِ ذوق کے سیکڑوں محمد نواز کھرل کاشف منظور ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ غافر شہزاد سلمی اعوان صوفیہ بیدار نیلم احمد بشیر کارٹونسٹ جاوید اقبال ڈاکٹر صغرا صدف حسن عباسی مشفق خواجہ کے بھائی عبدالرحمن طارق ڈاکٹر اورنگ زیب عامگیر توقیر احمد شریفی آزاد مہدی رخشندہ نوید فاروق خالد ڈاکٹر صائمہ اکرم اور دیگر اھل قلم سے ملاقاتیں یادگار ٹھہریں فرخ سہیل گوئندی تخت لاہور کے ادبی منظر نامے میں بہت اہم اور فعال کردار ادا کر رہے ہیں جہاں گردی سے فرصت ملتی ہے تو نئی منفرد اور معیاری کتابوں کے انبار لگا دیتے ہیں مکالمے اور ڈائیلاگ کا اہتمام کر تے ہیں اس بار بھی جمہوری پپلیکیشنز کے زیر اہتمام مکالمے اور لذت کام و دہن کا انتظام و انصرام کر ڈالا۔
محترم مجیب الرحمٰن شامی پروفیسر نسیم شاہد میاں منیر مظہر سلیم مجوکہ اسلم ڈوگر پروفیسر اشرف جاوید خواجہ اقبال اور دیگر دوستوں کی مدلل اور ملکی صورت حال پر تشویش والی گفتگو نے مکالمے کا خوب ماحول بنانے رکھا ڈاکٹر مشتاق مانگٹ کا خیبر پختونخواہ کا سفر نامہ بھی احباب میں تقسیم کیا گیا لاہور آ کر دیگر رفتگان کے ساتھ ساتھ اظہر جاوید سلمان بٹ سیہل اصغر اطہر ناسک اختر شمار ڈاکٹر طارق عزیز نذر بلوچ اور فرتاش سید جیسے محبت کرنے والے دوستوں کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی ہے ملتان سے تعلق رکھنے والے دوست رؤف کلاسرا گل نوخیز اختر فاروق احمد تسنیم عباس تابش پروفیسر ناصر بشیر ڈاکٹر نوید شہزاد اور یونس سہیل اپنی اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کر رہے ہیں۔ خواہش کے باوجود محترم کرنل ر احمد ندیم قادری سعید آ سی طارق محمود حسین ٹاقب اور چند دیگر دوستوں سے ملاقات نہ ہو پائی ان شاء اللہ یار زندہ صحبت باقی اس بار بھی محترم عطاء الحق قاسمی سے بھرپور ملاقات رہی اور انہیں ڈاکٹر ذوالفقار علی رانا کا سفر نامہ یورپ تیرے روپ ہزار پیش کیا دوسرے شہر جاکر ادبی دوستوں سے تجدید ملاقات کے ساتھ ساتھ کتابوں کے تحائف کا تبادلہ بھی خوشی کا باعث بنتا ہے بے شک اسلام آ باد کراچی ملتان فیصل آباد اور دیگر شہروں کا اپنا ایک خاص مزاج اور تہذیبی اقدار ہیں لیکن لاہور آ کر ایک خاص اپنائیت اور زندہ دلی کا احساس ہوتا یے صحیح کہتے ہیں کہ لہور لہور اے۔
٭…٭…٭