گزشتہ سے پیوستہ: بحوالہ میرے کالمز مؤرخہ 29اپریل ،6 مئی اور18مئی 2024ء کی رو سے نظر آتا ہے کہ ہندو اور سکھ اس قتل و غارت کے لئے بہت پہلے سے تیار تھے۔ جونہی انہیں موقعہ ملا انہوں نے مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا دیں ۔ لاشوں کو یہ لوگ آگ لگا دیتے یا پھر پرندوں اور جانوروں کی خوراک بننے کے لئے پھینک دیتے۔ہماری بے بسی کا مذاق اڑاتے۔ ہماری عزت اور جان و مال میں سے کچھ بھی تو محفوظ نہ تھا۔جنرل ٹکر کی نظر میں ہندو بے قابو ہوچکے تھے۔
17 اگست کو صبح فوج کی تین بٹالینز حالات پر قابو پانے کے لئے لائی گئیں۔ جب فوج آئی تو کلکتہ کی پوری کالج سٹریٹ مارکیٹ شعلوں کی لپیٹ میں تھی۔ ایمہر سٹ Emherst Street سٹریٹ میں بلوائی دوکانیں لوٹنے کے بعد ایک لوہے کا سیف باہر کھینچ لائے اور اسے توڑ کر لوٹ لیا۔ اپر سرکلر روڈ پر غنڈے بھاگ بھاگ کر آگ لگا رہے تھے اور موقعہ پر ہجوم تالیاں بجا بجا کر ان غنڈہ کاروائیوں کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔ پورے شہر میں کرفیو لگا دیا گیا لیکن حالات پھر بھی قابو میں نہ آئے۔ سکھ اور ہندو تلواروں۔ کر پانوں اور بندوقوں سے مسلح ٹیکسیاں بھر بھر کر مختلف علاقوں میں جاتے اور سفاکانہ انداز میں کاروائیاں کرتے۔ لوٹ مار اور قتل و غارت کی یہ کاروائیاں 19 اگست کی صبح تک جاری رہیں۔ بازار اور گلیاں لاشوں سے بھر گئیں۔ صرف ایک بازار میں 450 لاشیں گئی گئیں۔ مسلمان بستیوں پر جو قیامت گزری قابل بیان نہیں۔ مکمل طور پر تباہ کر دی گئیں۔
باغ بازار سٹریٹ میں بھی ایک مسلمان بستی تھی جہاں ایک بھی ذی روح زندہ نظر نہ آیا۔ تین معصوم بچوں کی لاشیں سامنے ہی پڑی تھیں۔ سو بھا بازار لاشوں سے آنا پڑا تھا۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں 15 لاشیں اور دوسرے میں 12 لاشیں پڑی تھیں۔ یہی حالت باقی جگہ پر بھی تھی۔ ہندو اور سکھ درندے بن گئے۔ بہت بیدردی سے لوگوں کو مارا مثلاً ٹرام سٹیشن پر ایک آدمی کی ایسی لاش ملی جو دیکھ کر ہی انسان پاگل ہوتا تھا۔ اس بد قسمت انسان کو پکڑ کر ایک الیکٹرک کھمبے کے ساتھ باندھا۔ اس کے پاؤں باند ھے۔۔ ہاتھ پیچھے باندھے پھر ڈرل مشین سے ماتھے سے اسکے سر میں سوراخ کیا تاکہ وہ خون نکلنے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مرے۔
یہ قتل و غارت اتنے وسیع پیمانے پر تھی کہ نہ اس پر پولیس قابو پاسکی اور نہ فوج حالانکہ پورا برگیڈ شہر میں ڈیوٹی پر تھا۔ 19 اگست کو جب حالات قابو میں آئے تو مزید تین دن لاشیں اٹھانے میں لگے۔ بازار اور گلیاں سب لاشوں سے بھری تھیں۔ اس وسیع قتل و غارت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ فوج نے بنگال کے سرجن جنرل کو ساڑھے سات لاکھ یونٹس انٹی ٹینٹس سیرم (Anti-Tetnus Serun units) مہیا کیں۔ اندازہ تھا کہ لگ بھگ 4 ہزار لوگ قتل ہوئے اور 10 ہزار زخمی۔ اس سے پہلے فروری میں بھی ایسے ہی فسادات ہوئے تھے جن میں تقریباً2 1/2 ہزار لوگ مارے گئے تھے سب سے ارزاں مسلمانوں کا خون تھا۔
ان فسادات سے دونوں فرقوں میں نفرت اس حد تک بڑھ گئی کہ ان کا اکٹھے رہنا ممکن ہی نہ رہا۔ ان فسادات کے ردِ عمل کے طور پر مشرقی بنگال میں فسادات پھوٹ پڑے اور ڈھا کہ میں تقریباً دو سو آدمیوں کو چاقو زنی سے قتل کیا گیا جن میں اکثریت ہندوؤں کی تھی۔ یہ لہر کلکتہ سے ہوتی ہوئی آسام، بہار اور اڑیسہ تک پہنچی۔ عوام کا امن شدید متاثر ہوا۔ 15 اکتوبر کو دوبارہ کلکتہ میں ایک ہندو مذہبی جلوس نکالا گیا جو مختلف بازاروں سے نعرہ بازی کرتے ہوئے ایک مسجد کے سامنے جا کر رک گیا اور خوب نعرہ بازی شروع کر دی۔ مسلمان اس وقت مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے۔ اس سے فضا کشیدہ ہوئی۔ فسادات پھوٹ پڑے۔ دو دن خنجرزنی اور چاقو زنی جاری رہی جو بالآخر خود بخودختم ہوگئی۔ اس کے بدلے نومبر میں مشرقی بنگال میں پھر فسادات ہوئے۔ تقریباً تین سو آدمی مارے گئے۔ ہندو پریس نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ بڑھا چڑھا کر اس طرح کی خبریں لگائیں کہ بہار اور یوپی کے ہندو بھی مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ فسادات نے بڑھتے بڑھتے پنجاب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بہت سے انسان قتل ہوئے۔ وسیع پیمانے پر لوگوں کی جائیدادیں تباہ ہوئیں۔ اس قتل و غارت اور تباہی کا ریکارڈ عوام سے خفیہ رکھا گیا لیکن اندازہ ہے کہ ہزاروں لوگ قتل ہوئے اور اربوں کی جائیدادیں تباہ ہوئیں۔
اکتوبر 1946 میں بہار اور یوپی میں حالات اتنے خراب ہوئے کہ 13 انفنٹری یونٹیں وہاں بھیجیں گئیں لیکن حالات پھر بھی قابو میں نہ آئے۔ ابتدا میں ہندو غنڈوں نے یوپی میں ’’چھرو کی ‘‘ریلوے سٹیشن پر حملہ کر کے چند مسلمانوں کو مار دیا۔ 25 اور 26 اکتوبر کو ہندوؤں نے بہار میں’’ چھیرا ‘‘کے علاقے میں مسلمانوں پر حملہ کیا اور 63 آدمی مارے گئے۔ دو دن بعد ’’بھاگل پور ‘‘میں 50 لاشیں اٹھانی پڑیں۔ 4 نومبر کو بہار میں ’’خیرا ‘‘کے مقام پر 20 مسلمانوں کو چھرے گھونپ کر مارا گیا اور ’’آرسن‘‘ کے مقام پر 30 مسلمان قتل ہوئے۔ اس کے بعد ایسا قتل عام شروع ہوا جو رکنے میں نہ آیا۔ بقول جنرل منکر بہار کے فسادات میں سات سے آٹھ ہزار مسلمان قتل ہوئے جبکہ مسلم لیگ کے اعلان کے مطابق بیس ہزار سے زیادہ لوگ قتل ہوئے۔ ہندوؤں نے بہت درد ناک اور وحشیانہ طریقوں سے مسلمانوں کو مارا۔ عورتوں اور بچوں کو بیدردی سے قتل کیا۔ حاملہ خواتین کے پیٹ پھاڑ کر ان کے پیٹ میں پلنے والے بچوں تک کو نہ بخشا گیا۔ یہ انسانی درندگی کی ناقابل یقین مثال تھی۔ ہند و سولجر ز بھی دیکھ کر اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے۔
کچھ دن بعد پتہ چلا کہ قتل و غارت کی وسیع واردات مارواری برادری۔ ہندو تاجران اور کلکتہ کے ہندوؤں نے ملکر مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لئے کی تھی کیونکہ اگست 1946 کے ایک میلے میں بہاری مسلمانوں نے ہندوؤں کی دوکانداری خراب کی تھی جسکا سرکاری طور پر کوئی ثبوت نہ ملا۔ بقول جنرل ٹکر یہ قتل و غارت ہندو مہا سبھا کے اکسانے پر کیا گیا۔ پولیس بالکل عضو معطل بن کر رہ گئی کیونکہ وہ ہند ولیڈروں کے زیر اثر تھی۔ 28 اکتوبر کو ’’پٹنہ‘‘ کے علاقے میں ایک ہندو لیڈر نے مشرقی بنگال میں مرنے والے ہندوؤں کے لئے سوگ کا دن منانے کا اعلان کیا جس سے پھر فسادات پھوٹ پڑے خنجر زنی کے واقعات شروع ہو گئے۔
31 اکتوبر کو ’’بھا گلپور ‘‘میں فسادات زور پکڑ گئے۔ مسلمانوں کی عمارات جلائی گئیں۔ اس دن ’’بھاگلپور‘‘ کے نزدیک ’’ترینگا ‘‘ریلوے سٹیشن پر چالیس مسلمانوں کو بیدردی سے ذبح کر دیا گیا۔ علاقہ مزید قتل و غارت سے بیچ گیا کہ فوج نے کنٹرول سنبھال لیا۔ یکم نومبر کو ’’پٹنہ ‘‘کے ڈپٹی کمشنر مسٹر بخشی نے مزید فوج کے لئے کہا۔ فسادات’’ پٹنہ ‘‘سے’’ شمالی بہار - جمشید پور اور دھن آباد‘‘تک پھیل گئے ۔ جہاں پورا ڈویژن بھی کم ثابت ہوا۔ تقریبا 14 مربع میل کا علاقہ شدید فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ حالات اتنے بے قابو ہوئے کہ پٹنہ فوج کے حوالے کرنا پڑا۔ فوج نے کنٹرول سنبھالا تو بہت سی تباہی ہو چکی تھی۔ نمبر 21/10 گورکھا بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل E.D Murray نے بڑی تفصیلی رپورٹ برگیڈ ہیڈ کوارٹر بھیجی جسکے کچھ اقتباس حسب ذیل ہیں۔ یہ بٹالین جمالپور سیکٹر میں حفاظتی انتظام پر مامور تھی۔ اسوقت ’’بہاء شریف - فتوا - اسلام پور اور ہلسا‘‘ میں حالات بہت خراب تھے۔ یہاں بہت سے مسلمان مارے گئے۔ ان کے گھر لوٹ لئے گئے اور جائیدادیں تباہ کر دی گئیں۔ بہت سی تباہی فوج کے آنے سے پہلے ہو چکی تھی۔ زندہ بچ جانے والے مسلمانوں کو فوج نے محفوظ مقامات تک پہنچایا۔
فتوا کے علاقے ’’جتھلی Jhutli‘‘ اور ’’بیکٹ پور Bakatpur‘ ‘میں سخت فسادات ہوئے اور فوج کے پہنچنے تک بہت سے مسلمان قتل ہو گئے۔ یہاں لاشوں کی بہت بے حرمتی کی گئی اور کٹی ہوئی لاشیں ملیں۔ یہ سب مادر زاد ننگے تھے اور آدھے جسم چلے ہوئے تھے۔ فتوا کے نزدیک’’ نمی Nimi ‘‘کے علاقے میں سات سو مسلمانوں کو فوج نے بچایااور محفوظ مقام فتوا تک پہنچایا۔
…………………(جاری ہے)