بادشاہت، ہماری جمہوریت اور انگریز قوم

یہ ایرانی انقلاب کی کہانی ہے۔ ایران کے سابق وزیر اعظم امیر عباس ہویدہ انقلابیوں کے ہتھے چڑھے ہوئے تھے۔ وہ انہیں اپنے بیان میں بتانے لگے۔ ’’میں کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ گنہگار نہیں ہوں۔ دراصل ساری ایرانی قوم ہی قصور وار ہے جو مطلق العنان نظام کے تحت زندگی بسر کرتی رہی‘‘۔ ایک دوسرے عدالتی کٹہرے میں ہویدہ یوں بیان صفائی دیتے پائے گئے۔ ’’میں ایک بہت بڑی مشین کا ایک چھوٹا سا پرزہ تھا۔ میرے انکار پر کئی دوسرے میری جگہ لینے کو آگے بڑھتے چلے آتے اور مشین اسی طرح چلتی رہتی‘‘۔ جب مشین (ایرانی سلطنت کا نظام حکومت) چل رہی تھی تو منظر نامہ کچھ یوں تھا: دربار میں بیٹھے شاہ ایران نے ہویدہ سے وقت پوچھا۔جواب ملا۔ چھ بجے ہیں۔ بادشاہ نے یہی سوال مہندس ریاضی صدر مجلس شوریٰ سے کیا۔جواب ملا۔چھ بجے ہیں۔ شاہ نے تعجب کا اظہار کیا کہ اس کی گھڑی ایک گھنٹہ پیچھے ہے اور پانچ بجا رہی ہے۔ اس نے اپنی گھڑی اتار کر وقت ٹھیک کرنا چاہا۔ ھویدہ نے شور مچایااور روکا۔قربانت شوم۔ یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپکے غلام یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ حضور کو گھڑی درست کرنے کی زحمت اٹھانی پڑے۔ آپ اپنی گھڑی کو یونہی رہنے دیں۔ ہم پینتیس ملین ایرانی اپنی گھڑیوں کو ایک گھنٹہ پیچھے کر لیتے ہیں۔ لطیفہ اچھا ہے۔ مگران دنوں حالات اتنے اچھے نہ تھے۔ ایرانی انقلاب پر اپنی شاندار کتاب ’’لوح ایام‘‘ میں مختار مسعود نے لکھا: ’’اس وقت شاہ کی گھڑی کے مطابق مغرب کا وقت ہے۔سورج ڈوب رہا ہے۔ عوام کی گھڑیوں میں فجر کا وقت ہے۔ سورج طلوع ہونے والا ہے۔ جہاں اوقات میں اتنا فرق ہو وہاں گھڑیاں ملائی نہیں جاتیں۔ جو وقت سے پیچھے رہ جائے اسے ناکارہ سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے‘‘۔ 
ان دنوں پاکستان میں ابھی عوام کی گھڑیوں میں فجر کا وقت نہیں۔ یہاں تھانیدار بادشاہی کرتا ہے اور حکمران تھانیداری کرتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حکومت وقت کچھ کہتی ہے اور وقت کچھ اور کہتا ہے۔ نہ کوئی حکومت کی سن رہا ہے اور نہ ہی وقت کی پکار۔ 
مزے کی بات ہے کہ جمہوری نظام کے دعویدار اس ملک میں سیاسی کارکن نام کی کوئی مخلوق نہیں۔ جیسی تیسی سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ جماعتی سربراہ اور دیگر نامزد عہدیدار بھی موجود ہیں۔ لیکن کوئی سیاسی کارکن موجود نہیں۔ اسی لئے کبھی بھی غیر آئینی حکمران کو نئے ساتھی ڈھونڈنے میں دقت پیش نہیں آتی۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ ایک سیاسی کارکن میں عزت نفس کا احساس، اپنے حقوق سے آگاہی اور انہیں حاصل کرنے کی دھن، سبھی کچھ ہوتا ہے۔ وہ اپنے حکمران کو پرستش کے سنگھاسن پر بٹھانے کی بجائے اسے پرسش کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی سکت رکھتا ہے لیکن یہاں صرف غیر مشروط وفاداری کا بڑھ چڑھ کر مظاہرہ ہے۔ 
ایک دن گوجرانوالہ میاں نوازشریف کی بڑی سی گاڑی آکر رکی۔ ایک ن لیگی کارکن آگے بڑھا اور میاں صاحب کی گاڑی چومنے لگا۔ وہ کھسیانی ہنسی ہنس کر رہ گیا جب اس نے دیکھا کہ نیچے گاڑی کے ٹائر چومنے والے بھی موجود ہیں۔ پیر صاحب پگاڑا شریف کے حْر اور ایک سیاسی کارکن میں زمین آسمان کا سا فرق ہوتا ہے۔ لیکن ادھر یار لوگوں نے یہ فرق رہنے نہیں دیا۔ یہاں سیاسی کارکن،سیاسی کارکن نہیں رہے۔ وہ بڑے فخر سے پیر صاحب پگاڑا شریف کے حْر بنے پھرتے ہیں۔ 
ان انتخابات سے پہلے گوجرانوالہ میں محترمہ مریم نواز کا تنظیمی مطالعاتی دورہ تھا۔الیکشن اور انتخابی ٹکٹوں پر غور و خوض اور سفارشات مقصود تھیں۔ کئی مرتبہ ممبر قومی اسمبلی اور ایک مرتبہ وفاقی وزیر رہنے والے ایک بزرگ سیاستدان کے حلقہ میں نیا امیدوار لانے کی خبر کوئے سیاست میں عام تھی۔ میٹنگ ختم ہوئی۔ شرکاء اٹھنے لگے۔ اب وہ بزرگ سیاستدان اٹھے اور با آواز بلند بولے۔ دم بھر کیلئے ٹھہریے، میری ایک بات سنتے جائیے۔ پھر ایک نئی طرز کا ایک قصیدہ پیش ہوا۔ فرمانے لگے۔ میں سارے اجلاس میں شرم کے مارے چپ رہا۔سب کچھ سنتا رہا۔ مجھ سے یہ دکھ ہی برداشت نہیں ہو رہا کہ ہمارے قائد کی قابل فخر بیٹی کو آخر ہماری محنت، خلوص، وفاداری، کارکردگی میں یقینا کوئی کمی، کوئی سقم نظر آیا ہوگاجو انہیں لاہور سے چل کر یہاں آنا پڑا۔ کردہ اور ناکردہ کوتاہیوں کی معافی تلافی کے بعد وہ آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ حسب سابق بخشش خاص کے آرزو مند ہوئے۔اب انہیں ٹکٹ دیکر جتوا دیا گیا۔ پھر وہ بامراد ٹھہرے اور ان کے بدخواہ بے مراد۔ 
مسلمانوں کی بے مہار بادشاہت اور جمہوریت کی کہانی کے بعد انگریزوں کی آئینی بادشاہت کا رنگ روپ دیکھیں۔ اٹھارہویں صدی میں نیو انگلینڈ میں سورج گرہن ہوا۔ دن تاریک ہو گیا۔ لوگ سراسیمہ ہو گئے۔ گمان گزرا کہ شاید روز قیامت آن لگا ہے۔ وہاں اسمبلی کا اجلاس ہو رہاتھا۔ ایک ممبر نے اجلاس ملتوی کرنے کی تجویز پیش کی۔ دوسرے رکن نے جس کا نام دیون پورٹ تھا، التواء کی مخالفت کرتے ہوئے کہا۔اگر یہ قیامت ہے تو میں چاہوں گاکہ وہ مجھے اپنی جگہ پر موجود اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف پائے۔ چھٹی کیسی؟ موم بتی جلاؤ اور اجلاس جاری رکھو۔

ای پیپر دی نیشن