ہزاروں ڈالرز دے کر میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے پاکستانی طلبہ کرغزستان کا رُخ کیوں کرتے ہیں؟

جمعے کو رات گئے پاکستانی سوشل میڈیا پر وسطی ایشیا کے ایک ایسے ملک کا نام زیرِ گردش تھا جس کے بارے میں یہاں اکثر لوگ زیادہ نہیں جانتے، مگر پاکستانی حکام کے مطابق کرغزستان میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی تعداد ہزاروں میں ہے۔کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں جمعے کی شب ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے لیس مظاہرین نے پاکستانیوں سمیت دیگر غیر ملکی طلبہ کے ہاسٹلز میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد غیر ملکیوں سمیت کم از کم 14 پاکستانی طلبہ کو زخمی کیا۔ اس دوران پاکستانی اور انڈین حکام نے اپنے ملکوں کے طلبہ کو گھروں تک محدود رہنے کی ہدایت دی۔اگرچہ کرغزستان کے حکام کے مطابق صورتحال اب قابو میں ہے تاہم پاکستانی طلبہ کی وطن واپسی کا سلسلہ اب شروع ہو چکا ہے جس کے لیے پاکستان کی جانب سے خصوصی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔کرغزستان کے وزیرِ صحت المقادر بیشنالیو نے رواں برس جنوری میں اسلام آباد میں منعقد گلوبل ہیلتھ سکیورٹی سمٹ میں شرکت کے دوران بتایا تھا کہ ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں 12 ہزار پاکستانی طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ پاکستانی طلبہ کی ایک کثیر تعداد وسطی ایشیا کے دیگر ممالک سمیت 69 لاکھ کی آبادی والے ملک کرغزستان کو میڈیکل کی تعیلم کے لیے کیوں چُن رہی ہے؟ اس سوال کا جواب پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم کے نظام سے جڑا ہے۔آئیے پہلے وسطی ایشیا کے اس خوبصورت ملک کے بارے میں آپ کو چند دلچسپ تفصیلات سے آگاہ کرتے ہیں۔

پاکستانی طلبہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کرغزستان کیوں جاتے ہیں؟
یہاں سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ پاکستانی طلبہ وسطی ایشیا کے اس چھوٹے سے ملک میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کیوں جا رہے ہیں۔حسنات کا تعلق پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع باغ سے ہے۔ سنہ 2018 میں ایف ایس سی کے بعد جب انھوں نے پاکستانی میڈیکل کالجز میں اپلائی کیا، تو اس سال میرٹ بہت زیادہ ہونے کے باعث وہ اس پر پورے نہیں اتر سکے تھے۔سنہ 2019 میں انھوں نے انٹرنیشنل یونیورسٹی آف کرغزستان، انٹرنیشنل سکول آف میڈیسن میں داخلہ لے لیا اور وہاں سے پانچ سال کا ایم بی بی ایس کرنے چلے گئے۔ وہ ابھی چند ہی ماہ قبل وہاں سے لوٹے ہیں اور پاکستان میں اپنی ہاؤس جاب مکمل کر رہے ہیں۔انھوں نے اپنی پانچ سالہ پڑھائی کے دوران یونیورسٹی کو فیس کی مد میں 20 ہزار ڈالر دیے، جبکہ دیگر اخراجات کی مد میں ماہانہ ان کے 50 ہزار روپے خرچ ہو جاتے تھے۔ اس صورتحال میں انھیں مقامی کرنسی کی قدر میں کمی کا بھی فائدہ ہوا۔اسلام آباد کی ایک ایجوکیشن کنسٹلنسی فرم سے منسلک عائشہ نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستانی طلبہ کی جانب سے کرغزستان کے میڈیکل کالجز کا انتخاب اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ ’ایک تو پاکستان میں سرکاری میڈیکل کالجز میں میرٹ بہت زیادہ بنتا ہے جبکہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز میں بھی اکثر طلبہ کو یا تو جگہ نہیں ملتی یا ان کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے۔‘خیال رہے کہ گذشتہ سال کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا میرٹ 93.6 فیصد پر بند ہوا تھا جبکہ سب سے کم میرٹ 91.2 فیصد ڈی جی خان میڈیکل کالج کا رہا تھا۔انھوں نے کہا کہ ’کرغزستان میں میڈیکل کالجز کے انٹری ٹیسٹ نہیں ہوتے، صرف آپ کے ایف ایس سی میں نمبر 60 فیصد سے زیادہ ہونے کی شرط رکھی جاتی ہے۔‘عائشہ کے مطابق ’کرغزستان میں تعلیم سنہ 2019 تک تو طلبہ کو سستی پڑتی تھی لیکن اب ڈالر کے ریٹ بڑھنے کے بعد یہ یونیورسٹیاں بھی سستی نہیں رہیں اور بیچ میں پاکستان میڈیکل اور ڈینٹل کونسل کی جانب سے متعدد کرغز یونیورسٹیوں کو بلیک لسٹ بھی کیا گیا تھا۔اب اکثر میڈیکل کے طلبہ چین کی یونیورسٹیوں کا رُخ کرنے لگے ہیں۔‘

ای پیپر دی نیشن