مندرہ (نامہ نگار + ایجنسیاں + نوائے وقت نیوز) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ سینٹ کے الیکشن وقت پر ہونگے اور ان میں حکومت کا پلڑا بھاری نہیں ہو گا‘ مسلم لیگ (ن) کو سینٹ انتخابات سے کوئی ڈر نہیں یہ الیکشن ہونے چاہئیں تاکہ جمہوری نظام چلتا رہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں صرف پیپلز پارٹی نہیں دیگر جماعتیں بھی موجود ہیں‘ حسین حقانی متنازعہ میمو کا معاملہ کسی طرف ضرور لگے گا حکومت نے عوام کے اطمینان کے مطابق انکوائری نہ کی تو سپریم کورٹ سے رجوع کرینگے‘ قوم میمو کے نتائج کا برسوں انتظار نہیں کر سکتی حقائق 10 روز میں سامنے آجانے چاہئیں‘ انٹیلی جنس ادارے ایک سیاسی جماعت کی سرپرستی کر رہے ہیں‘ آرمی چیف جنرل کیانی نے سیاسی معاملات میں مداخلت نہ رکوائی تو ان پر بھی الزام آئے گا، ہم نہیں چاہتے کہ پاک فوج پر کوئی الزام لگے‘ عمران خان سمیت سب کی خیر مانگتا ہوں‘ سیاسی پہلوان ایجنسیوں یا کسی اور کے سہارے نہیں اپنے زور بازو سے سیاسی اکھاڑے میں آئیں‘ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جا سکتی ہے تو پرویز مشرف کا ٹرائل کیوں نہیں ہو سکتا؟ میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کیا جاتا تو صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی موجودہ صورتحال سے دوچار نہ ہوتے۔ مندرہ میں دارالعلوم صدائے مدینہ گمٹی شریف میں سالانہ انٹرنیشنل میلاد کانفرنس میں شرکت کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حسین حقانی اور منصور اعجاز کے متنازعہ میمو کے معاملہ ایسا نہیں کہ قوم چھ ماہ یا ایک سال تک نتیجے کا انتظار کرتی رہے۔ معاملے کی انکوائری قومی اسمبلی بھی کر سکتی ہے لیکن اس میں حکومتی پارٹی کو فریق نہیں بننا چاہئے یہ معاملہ نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اس طرف یا اس طرف ضرور لگے گا یہ نہیں ہو سکتا کہ اتنا بڑا ایشو ایسے ہی چلا جائے اور اس کا فیصلہ نہ ہو سکے، حکومت نے تسلی بخش طور پر انکوائری نہ کرائی تو میمو کا معاملہ سپریم کورٹ میں جائےگا اور شاید ہم خود اسے عدالت لے کر جائیں حکومت کو مسئلے کی تحقیقات کےلئے انکوائری کمشن تشکیل دینا چاہئے۔ فخر الدین جی ابراہیم جیسے ریٹائرڈ ججز موجود ہیں جنہیں کمیشن میں شامل کر کے تحقیقات کرائی جا سکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت مخالف تحریک میں دم ضرور ہے مگر خم نہیں۔ متنازعہ میمو کی اصل باتیں اب سامنے آئی ہیں جس کے بعد مسلم لیگ (ن) نے فوری نوٹس لیا ہے۔ شاہ محمود قریشی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنائے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں نواز شریف نے کہا کہ شاہ محمود قریشی سے پچھلی ملاقات میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی اب جب ملاقات ہو گی تو تمام امور پر غور کیا جائےگا۔ ہم کہتے ہیں کہ ایبٹ آباد واقعہ کی بے لاگ انکوائری ہونی چاہئے لیکن لگتا ہے کہ انکوائری کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا ہے جس کا مجھے ذاتی طور پر دکھ ہے مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ایسا کیونکر ہو رہا ہے؟ سلیم شہزاد اور ولی خان بابر کو جب شہید کیا گیا تو ہم نے ان معاملات پر سخت آواز اٹھائی جن طاقتوں کی طرف انگلیاں اٹھ رہی تھیں ہم نے اس کی پروا نہیں کی، میں ذاتی طور پر صحافیوں کے احتجاج میں شریک ہوا آج کل ٹی وی چینلز پر سیاست کی بہت باتیں ہوتی ہیں ایک دوسرے پر حملے اور الزام تراشیاں کی جاتی ہیں لیکن سلیم شہزاد اور ولی خان بابر کی بات میڈیا پر نہیں ہوتی کیا میڈیا اپنے لوگوں کو بھی بھول گیا؟ ملزموں کے پکڑے جانے تک پیچھا کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس شواہد موجود ہیں کہ ایجنسیاں ایک مخصوص جماعت کی حمایت کر رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے اصولوں کے مطابق آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ اٹھایا تھا اس کا جواب حکومت کو دینا چاہئے۔ موجودہ حکومت میثاق جمہوریت پر عمل کرتی پرویز مشرف کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاتا‘ صاف و شفاف کمشن تشکیل دیا جاتا‘ فوجی بجٹ پارلیمنٹ میں لایا جاتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ اس حکومت میں اتنی جرات بھی نہیں کہ فوج کا بجٹ پارلیمنٹ میں لائے۔ تحریک انصاف کے سربراہ ایجنسیوں کی بیساکھیوں کے بل بوتے پر الیکشن میں کامیابی کے جو دعوے کر رہے ہیں انہیں سیاسی اکھاڑے میں اتر کر مقابلہ کرنا چاہئے تاکہ انہیں اپنی حیثیت کا پتہ چل جائے۔ قبل ازیں نوازشریف نے دارالعلوم صدائے مدینہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر پیر ارشد محمود قریشی‘ مفتی خان محمد قادری‘ پروفیسر فیض محمد فیض اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما بھی موجود تھے۔ نوازشریف نے کہا کہ عام زندگی ہو یا سیاست جھوٹے الزامات لگانے سے گریز کرنا چاہئے۔ غیبت کرنا مردار گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ دینی اداروں کو چاہئے کہ وہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم پر توجہ دیں تاکہ ملکی ترقی میں بہتری لائی جا سکے۔