یوسف رضا گیلانی ۔۔ اینگری مین

شواہد بتا رہے ہیں کہ قانون نہایت سنجیدگی کے ساتھ صدر آصف علی زرداری کے دو عہدوں کے پیچھے پڑ چکا ہے بالکل اسی طرح جیسے سوئس عدالت کو خط نہ لکھنے کا اعلان کرکے یوسف رضا گیلانی قانون کو کھٹکنے لگے تھے۔ کہتے ہیں کہ مدمقابل خواہ کتنا ہی طاقتور ہو بالآخر فتح قانون کی ہوتی ہے۔ یوسف گیلانی کو انکار کی سزا بھگتنی پڑی اور نہ چاہنے کے باوجود بھی انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ قانون فتح یاب ہوا اور گیلانی صاحب اقتدار چھن جانے کے باعث پیش آنے والی مشکلات اور محرومیوں پر صرف سیخ پا ہی نہیں ہوئے بلکہ ان کے آنسو ہیں جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
یوسف گیلانی کے ایسے دوستوں کی کمی نہیں جو مسلسل ان کے کان بھر رہے ہیں کہ پارٹی اور صدر زرداری نے انہیں قربانی کا بکرا بنایا۔ ان سے جان چھڑوائی۔ یہی وجہ ہے کہ گیلانی صاحب اکھڑے اکھڑے نظر آنے لگے ہیں۔ وہ حکومت خاص کر زرداری صاحب کے لئے اینگری مین کا روپ دھار چکے ہیں۔ ان کی شدید ناراضگی کا ادراک کرتے ہوئے ہی تو صدر زرداری کو ملتان جانا پڑا ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق صدر زرداری اپنے مشن میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن گیلانی فیملی کے زخموں پر مرہم رکھ آئے ہیں۔
حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو پی پی پی کی قیادت اور پالیسی سازوں نے یوسف گیلانی کو مروایا ہے۔ ان سے خط نہ لکھنے کا ورد کرواتے رہے دوسری طرف اندرون خانہ دیگر انتظامات بھی کرتے رہے۔ ان انتظامات کو قطعی طور پر پوشیدہ رکھا گیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ پارٹی قیادت اصل میں گیلانی اور انکی فیملی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہ رہی تھی۔ پارٹی قیادت نے ایک تیرے دو شکار کئے۔
یوسف گیلانی بھولے ثابت ہو رہے ہیں کہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کی پارٹی قیادت ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گی۔ انہوں نے شاید یہ کہاوت نہیں سن رکھی کہ ”جس تن لاگے وہی تن جانے“۔ پی پی پی کی اعلیٰ قیادت جس کی سیاسی چالوں کی پوری دنیا معترف ہے اتنی بھولی نہیں کہ جس گیلانی اور اس کے خاندان کی کرپش کی کہانیوں سے بچنے کے لئے اسکا پتا صاف کروایا اب اسی یوسف گیلانی کی پارسائی کی قسم اٹھائے۔
اگر صدر زرداری نے واقعی اپنے سابق وزیراعظم کو منا لیا ہے (جس کے امکانات کم ہیں) تو میں نہیں سمجھتا کہ گیلانی صاحب نے مسلم لیگ ن جوائن نے کرنے کا قطعی فیصلہ کر لیا ہے‘ میرا نہیں خیال کہ یوسف گیلانی بہت جلد ایوان صدر کے دو کمروں میں دوبارہ شفٹ ہو جائیں گے ایک بار پھر پی پی پی کے جلسے سے خطاب کرنے لگےں گے‘ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو برداشت کرنے لگیں گے کیونکہ سنا ہے کہ راجہ صاحب کو دیکھ اور سن کر یوسف گیلانی کا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اور وہ نہ جانے کسے کسے برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ صدر زرداری نے ایوان صدر میں سیاسی سیل بنا رکھا ہے‘ وہ سیاسی جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ جو بطور صدر انہیں نہیں کرنا چائے‘ آصف زرداری صدر ہوتے ہوئے پارٹی چیئرمین شپ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ یہ تمام قانونی پہلو ہیں جن پر بحث نہایت زور شور سے جاری ہے‘ ٹی وی چینلوں پر اسی موضوع پر کافی شور و غوغا کیا جا رہا ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اس ایشو پر صحیح رائے صرف ماہرین قانون ہی دے سکتے ہیں۔ بطور ایک صحافتی تجزیہ نگار صرف اتنا کہوں گا کہ صدر زرداری کو جلد یا بدیر ایک عہدہ چھوڑنا ہو گا کیونکہ آثار رہتا رہے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ ٹھان بیٹھی ہے کہ زرداری صاحب سے ایک عہدہ واپس لینا ہے۔
 زرداری صاحب کو اگر مجبور کیا گیا تو وہ کونسا عہدہ چھوڑیں گے صاحب؟ میری موٹی عقل کے مطابق زرداری صاحب صدارت کی بجائے پارٹی چیئرمین شپ چھوڑ دیں گے اور ایسا کرنے میں ہی ان کا فائدہ ہے۔ لوگ پوچھیں گے کہ صدر زرداری کے بعد پی پی پی کے چیئرمین شپ کسے ملے گی تو جناب جواب بڑا آسان ہے‘ محترمہ فریال تالپور یا سید یوسف رضا گیلانی۔ مختصر سا انتظار فرمائیے۔
پاکستان زندہ باد۔ پاکستان کھپے

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...