انتخابی نشانات جانور اور سیاست

Nov 20, 2012

ڈاکٹر اختر شمار

 آپ مانیں یا نہ مانیں، سیاست میں بھی جانور اور پرندوں کا کچھ نہ کچھ عمل دخل ضرور ہے۔ حضرتِ انسان خود کو شاید جانوروں اور پرندوں کے بغیر قدرے ادھورا سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی وہ اپنے اندر جانوروں پرندوں وغیرہ کی صفات کو اپنے لیے باعثِ فخر قرار دیتا ہے۔ اب دیکھئے ناں! شیر کو بہادراور طاقت کی علامت سمجھا جاتا ہے شاید اسی لیے بہت سے لوگوں کو شیر بھی کہا جاتا ہے۔ بعض انسان بُلبل، شاہین، عقاب بننا بھی پسند کر لیتے ہیں یہ الگ بات کہ گدھا، کتا، بھیڑےا، بکری، بلی، لومڑی بننا کم ہی پسند کیا جاتا ہے، حالانکہ ان جانوروں کی صفات بھی کہیں کہیں انسانوں میں نظر آتی ہیں۔ بات سیاست میں جانوروں کے عمل دخل کی ہو رہی تھی تو عرض یہ ہے کہ یہ عمل دخل انتخابات تک ہوتا ہے۔ انتخابات میں کئی جانوروں کو پارٹےوں کا انتخابی نشان بنا لیا جاتا ہے۔ حال ہی میں امریکہ جیسی سپر طاقت کے انتخابات کو دیکھ لیں، وہاں گدھے اور ہاتھی کے انتخابی نشانوں پر انتخاب لڑا گےا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ گدھے نے ہاتھی کو پچھاڑ ڈالا۔ سُنا ہے امریکی گدھوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ انہیں دنیا بھر میں جہاں بھی گدھے مل جائیں انہیں اپنا دوست بنانے میں ذرا دیر نہیں لگاتے --- جبکہ ہمارے ہاں گدھے جیسا مسکین جانور اور کوئی نہیں۔ ہم جس شخص کو سُست، غبی اور بیوقوف کہنا چاہیں یا جس پر غصہ اتارنا چاہیں تو اسے فوراً گدھے کا لقب دے ڈالتے ہیں، گویا گدھا غصے اور گالی میں بھی کام آ جاتا ہے اور اسے قدرے شائستہ گالی سمجھا جاتا ہے۔ اس سے آگے کتے، سور وغیرہ کی کٹےگری شروع ہوتی ہے۔ مگر اس سے بات گریبان تک جا سکتی ہے لہٰذا دفع کریں۔ جہاں تک ہاتھی کا تعلق ہے تو ہاتھی ہمارے ہاں صرف دیکھنے کی چیز ہے اور وہ بھی ٹکٹ لگا کر --- ہاتھی پاکستان میں تو صرف چڑیا گھروں میں پایا جاتا ہے جبکہ امریکہ میں تو ایک بڑی سیاسی پارٹی کا انتخابی نشان ہاتھی ہے۔ ہاتھی ”سفید“ بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک حکمران نے امریکہ کو ایک بار ”سفید ہاتھی“ بھی کہہ دیا تھا۔ امریکہ نے اس بات کو ”سفید جھوٹ“ قرار دیا اور متعلقہ حکمران کو سچ بولنے کی وہ سزا دی کہ ہم ابھی تک اپنی عدالتوں کو کوسنے میں لگے ہوئے ہیں۔
 ویسے ہمارے ہاں امریکی نژاد سفید ہاتھی اور سفید جھوٹ بہت مقبول ہیں۔ سیاست دان سفید جھوٹ بول کر عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں اور انتخابات جیتنے اور اقتدار میں آنے کے بعد یہی سیاستدان عوام کے لیے خود سفید ہاتھی ثابت ہوتے ہیں۔ بات سیاست اور جانوروں کی ہو رہی ہے۔ ہمارے ہاں الیکشن سر پر ہیں۔ معاف کیجئے اسے تلوار نہ سمجھا جائے مگر نجانے کیوں ان انتخابات سے شیخ رشید سمےت کئی سیاستدان ڈر بھی رہے ہیں کہ کہیں یہ گلے نہ پڑ جائیں مگر عوام ہیں کہ الیکشن کو واحد حل سمجھتے ہیں۔ سیاستدان انتخابات کے اعلان سے قبل ہی الیکشن مہم شروع کئے ہوئے ہیں اور تو اور صدر بھی عید ملن کے بہانے، ایوانِ صدر سے نکل کر پنجاب کے ایک شہر کا چکر لگا آئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے اگر پنجاب میں ان کا چکر لگتا رہا تو وہ پنجابی زبان اچھی طرح سیکھ جائیں گے۔ ہمیں حیرت ہے کہ اس سلسلے میں ابھی تک انہوں نے راجہ ریاض سے پنجابی کی ٹیوشن کی بات کیوں نہیں کی جو اردو تک پنجابی میں بول لیتے ہیں۔
 اگر راجہ ریاض سے صدر زرداری پنجابی سیکھ جائیں تو پنجاب سے ن لیگ کا ”ورقہ “ آسانی سے ” پاڑا“ جا سکتا ہے۔ وگرنہ تو پنجاب میں شیر دھاڑتا رہے گا یا پھر پی ٹی آئی کی گونج دور تک سُنائی دیتی رہے گی۔ شیر پنجاب میں مقبول ہے ۔ شیرِ پنجاب ، شیرِ بنگال ، شیرِ پاکستان ، شیرِ لاہور جیسے مقبول القاب عوام میں خاصے پسند کیے جاتے ہیں۔ شیر جنگل کا بادشاہ ہے۔ اسی ڈر سے کسی اور جانور نے انتخابی نشان بننے کی ہمت نہیں کی، ورنہ کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کا نشان لومڑ ، خرگوش ، گیدڑ بھی ضرور رکھ لیا جاتا اور شاید شیر کے مقابلے میں سیاستدان بھی گیدڑ، خرگوش یا کسی کمزور جانور کا انتخابی نشان لینا پسند نہیں کرتے اور جانوروں سے زیادہ بے جان اشیاءکو اپنا انتخابی نشان بنا لیتے ہیں۔ اس بار نجانے کون سائیکل پر بےٹھے گا۔ کس کے حصے تےر اور تلوا ر آئے گی اور کون انصاف کے ترازو سے سب کی صفائی کر دے گا --- سُنا ہے لوٹے کا نشان الیکشن کمشن نے ختم کر دیا ہے وگرنہ شاید کوئی سیاسی جماعت لوٹا پسند کرنے میں بھی ذرا دیر نہ لگاتی۔ ابھی تک تو ”شیر آیا، شیر آیا“ کی صدا گونج رہی ہے۔ کسی گلی میں سائیکل ، ترازو ، چھتری نہیں ہے۔ الیکشن کمشن کو جانوروں، پرندوں اور اپنے پرانے انتخابی نشانات کو جدید بنانے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ کئی زبردست انتخابی نشان ہمارے ارد گرد واضح نظر آتے ہیں۔ الیکشن کمشن انہیں فہرست میں شامل کر لے تو ممکن ہے کئی سیاسی جماعتےں مقبول یہ انتخابی نشانات بھی رکھ لیں۔ ایسے انتخابی نشانات میں ”ڈرون‘ ڈالر، روٹی‘ موبائل‘ توا‘ چولھا‘ ہیلمٹ، بلٹ پروف جیکٹ، گاڑی اور لیپ ٹاپ“ شامل کیے جا سکتے ہیں۔ انتخابی مہم شروع ہوتے ہی سیاسی پارٹےاں پاپولر شخصیات کو اپنے جلسوں میں لاکر عوام کو راغب کر سکتے ہیں۔ انہی شخصیات میں وینا ملک ، لیلیٰ، میرا کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ پی پی کے پاس رحمن ملک ، راجہ ریاض اسلم رئیسانی اور جہانگیر بدر سے لے کر کئی دیگر سیاستدان اور حکومتی کار گردگی بھی موجود ہے۔
 اور اگر پی پی ، ق لیگ ایم کیو ایم اور اے این پی مل کر الیکشن میں جائیں گے تو پھر چودھری شجاعت، الطاف حسین ، غلام احمد بلور ہی کافی ہیں، بھلے مقابلے میں شہباز شریف جالب کی نظمیں پڑھتے پھریں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ رونق لگنے والی ہے۔ الیکشن کا فی الفور اعلان کر کے سیاسی رونق دوبالا کی جاسکتی ہے تاکہ دکھی عوام کچھ دن تو ہلے گلے میں غم غلط کر سکیں۔ ورنہ رحمان ملک جس طرح کی پابندیاں لگا رہے ہیں اس سے حالات بگڑ بھی سکتے ہیں ۔ واللہ اعلم باالصواب!

مزیدخبریں