شراکت داروں کے مابین انڈرسٹینڈنگ اور کوآرڈی نیشن کی کمی کے باعث عروج پر پہنچے کاروبار پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے دیکھے گئے۔ خاندان کے افراد کے درمیان ربط و ضبط نہ ہو تو خاندان کی یکجائی اور بقا ممکن نہیں رہتی۔ ملک چلانے کےلئے انتظامیہ کے درمیان کوآرڈی نیشن نہ ہو تو اس کا خمیازہ انتظامیہ کو نہیں پوری قوم اور مملکت کو بھگتنا پڑتا ہے۔ آج ہم جس عذاب میں مبتلا ہیں اس کی ایک وجہ انتظامیہ کے درمیان انڈرسٹینڈنگ کا فقدان بھی ہے۔ ہم اداروں کے مابین مفاہمت کوآرڈی نیشن اور انڈرسٹینڈنگ کی بحث کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ حکومتی اتحادیوں کی بات بھی فی الحال نہیں کرتے۔
آج سلطانی جمہور کے دور میں مرکزی طاقت کا منبع پاکستان پیپلز پارٹی جو اپنی عظیم تر مفاہمانہ پالیسی کے باعث اتحادیوں کو ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ اس نے اس فلسفے کی بھی نفی کر دی ہے کہ کامیاب اتحاد صرف فطری اتحادیوں کے ساتھ ہی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ آج ہر فطری و غیر فطری پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ہمقدم ہے البتہ جو مسئلہ نظر آتا ہے وہ پیپلز پارٹی کی اپنی صفوں میں ہے جو پوری قوم کےلئے پریشانی کا سبب اور خود حکمران پارٹی کےلئے لمحہ فکریہ ہے۔
آزاد اور غیر جانبدار چیف الیکشن کمشنر کا تقرر حکومت کا احسن اقدام ہے۔ فخرالدین جی ابراہیم شفاف اور منصفانہ الیکشن کرانے کا عزم و ارادہ رکھتے ہیں۔ 2009ءمیں جوڈیشل پالیسی میں قرار دیا گیا کہ آئندہ عدالتی افسر الیکشن ڈیوٹی پر تعینات نہیں کئے جائیں گے۔ فخرالدین جی ابراہیم نے الیکشن کو واقعتاً منصفانہ بنانے کی خاطر سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ آئندہ الیکشن میں گذشتہ انتخابات کی طرح ججوں کی خدمات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے بڑے غور و خوض کے بعد عدالتی افسروں کو ریٹرننگ افسر مقرر کرنے کی درخواست قبول کر لی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انتخابات عدلیہ کی زیر نگرانی ہو رہے ہیں۔ الیکشن نگران حکومت کی زیر نگرانی الیکشن کمیشن ہی کرائے گا ۔ الیکشن کمیشن قانون کےمطابق حاصل اختیارات کےمطابق عدالتی افسران کے ساتھ ساتھ فوج کو بھی اپنی مدد کےلئے بلا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر کی درخواست کو پذیرائی بخشنے پر حکومتی حلقوں میں ایک ہلچل ہی نظر آئی۔ حالانکہ الیکشن کمیشن حکومت ہی کی خواہش پر منصفانہ الیکشن کرانے کےلئے سرگرم ہے۔ جس دن سپریم کورٹ نے عدالتی افسران کی خدمات الیکشن کمیشن کے حوالے کرنے کی منظوری دی اسی روز حکومتی ذرائع کے حوالے سے اعتراض سامنے آ گیا اور کہا گیا کہ عدلیہ کی نگرانی میں الیکشن قبول نہیں یہ بھی کہا کہ حکومت الیکشن کمیشن کو خط لکھے گی۔
حسب معمول ہر معاملے میں بولنے کا حق رکھنے والے وزیر اطلاعات و نشریات قمرالزمان کائرہ نے فرمایا کہ عدلیہ کی نگرانی میں الیکشن کے حق یا مخالفت میں فیصلہ نہیں ہوا۔ پارٹی کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد اس حوالے سے باضابطہ اعلان کیا جائےگا۔ ایسے بیانات سے لگتا ہے کہ الیکشن شاید عدلیہ کی زیر نگرانی ہوں گے جس میں نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کا کردار پس پردہ چلا جائےگا حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جس طرح دو ہزار آٹھ کے الیکشن ہوئے اسی طرح اب ہوں گے۔ اس میں کوئی عدالتوں کا کردار ہو گا نہ چیف جسٹس آف پاکستان کا۔ دیکھئے! اسی معاملے میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ بھی گویا ہوئے۔ انہوں نے عدالتی افسران کو انتخابی عمل میں شامل کرنے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ ایک ہی پارٹی کے وزیروں کے کے مابین کوآرڈی نیشن کیوں نہیں ہے؟
اس کی ایک مزید مثال بھی ملاحظہ فرمائیے۔ خورشید شاہ ہی فرماتے ہیں کہ یکم محرم کو موٹر سائیکل چلانے اور فون سروس پر پابندی رحمن ملک کا ذاتی فیصلہ تھا۔ اس سے بہتر تھا تعطیل کر دی جاتی۔ کوئی نوٹس لیتے ہوئے فیصلہ کرتے ہوئے اقدامات اٹھاتے بیانات دیتے اور اعلانات کرتے ہوئے کیا پیپلز پارٹی کے اندر کوئی اصول کوئی ضابطہ اور مشاورت کا طریقہ کار نہیں ہے۔ ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیے۔ سپریم کورٹ نے بلوچستان کی صوبائی حکومت ختم کرکے نئے الیکشن کرانے کا حکم دیا جہاں اس حکم کو نہیں مانا گیا وہیں پیپلز پارٹی بلوچستان کا ہی ایک بڑا حلقہ بلوچستان حکومت کی مخالفت کر رہا ہے۔ کم از کم پیپلز پارٹی اپنے اندر اتفاق و اتحاد کا تاثر تو دے۔ بلوچستان کے صوبائی وزراءجن کا تعلق ایک ہی پارٹی یعنی پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے وہ ایک دوسرے کو کرپٹ، ڈاکو اور اغوا برائے تاوان جیسے جرائم میں ملوث قرار دیتے ہیں۔ کیا بہترین کوآرڈی نیشن ہے حکومتی پارٹی کے اندر! ایسے الزامات درست ہیں یا بے بنیاد دونوں صورتوں میں پارٹی کی قیادت کی دانش پر سوالیہ نشان اور اس کی پارٹی پر گرفت کے ڈھیلا ہونے کا غماز ہے۔ ایوان صدر میں بیٹھی پیپلز پارٹی کی مہمان قیادت کیا اپنے وزراءکے مابین کوآرڈی نیشن کو یقینی نہیں بنا سکتی؟