اقبال کے حوالے سے ہر گزرتے دن میں شعور و فہم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقبالیات کا ادراک، اشتیاق اور معنویت میں انہماک، استغراق اور تدبر پیدا ہونے کی وجہ شاید یہ ہے کہ آج کا نوجوان اپنے سوالات کا شافی جواب چاہتا ہے۔ اسے لمحہ موجود اورماضی و مستقبل سے متعلق مدلل اور منطقی معلومات درکار ہیں۔ آج کا نوجوان لالی پاپ، فرضی اور تصوراتی جوابات کو رد کرتا ہے۔ وہ محض لفاظی سے نہیں مانتا۔ مفروضوں کو خاطر میں نہیں لاتا، وعدوں اور دعووں پر یقین نہیں رکھتا۔ اسے اپنے ہر سوال کا حتمی جواب چاہئے۔ ہر وہ شخص جو علم کا جویا ہے وہ اقبال کا عاشق ہے کیونکہ فکر اقبال میں ہر سوال ہر جواب موجود ہے۔ آج کے نوجوان کو محض باتوں سے ٹرخانا آسان نہیں کیونکہ ان کے پاس آج علم کے جدید ذرائع موجود ہیں۔ صحیح سچے اور حقیقی علم کی ترسیل اصل مسئلہ ہے۔ ہمارا نصاب ابلاغی علوم مغرب زدہ ہے۔ تمام حوالہ جات مغربی مفکرین کے دیے جاتے ہیں۔ ہر اقتباس شیکسپیئر، شیلے، دانتے، ورڈز ورتھ سے اٹھایا جاتا ہے۔ بڑے بڑے عالم فاضل دانشور اساتذہ اور مفکرین کے پندونصائح میںمغربی افکار کا غلبہ رہتا ہے۔
ہم امیر خسرو، ولی دکنی، میر تقی میر، میر درد، میر انیس، مرزا غالب، سرسید، حالی، شبلی، اکبر الٰہ آبادی اور اقبال جیسے عظیم شعراءکے خیالات سے کبھی پوری طرح واقف و آگاہ ہی نہیں ہوئے۔ ہم نے کبھی ان کی فکری عظمت کو بنظر تحسین نہ کبھی دیکھا اور نہ سمجھا، سارا مغرب ”غالب“ جیسا ہمہ صفت شاعر نہیں پیداکر سکا۔ حقیقت میں غالب شش جہات شخصیت کا مالک اور انیسویں صدی میں اکیسویں صدی پر نظر رکھنے والا زیرک اور مستقبل شناس تھا۔ مغرب میں نہ غالب کے پائے کا شاعر ہے اور نہ اقبال جیسا کوئی پیدا ہوا۔ تاہم غالب اور اقبال شناسی میں ہماری قوم نے بڑی تاخیر سے کام لیا۔ البتہ اقبال کے حوالے سے جناب مجید نظامی کی خدمات قابل تکریم ہیں۔ انہوں نے اقبال کے حوالے سے ہمیشہ عقیدت مندی اور عملی محبت کا ثبوت دیا ہے۔
نوائے وقت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہمیشہ نوائے وقت نے فکر اقبال کا چراغ شایان شان طریقہ سے جلایا ہے اور اقبال کے فلسفہ کو عام کرنے میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ قائداعظم، اقبال، فاطمہ جناح، لیاقت علیخان، مولانا ظفر علی خان کے سب سے بڑے نام لیواﺅں میں جناب مجید نظامی کا نام سرفہرست ہے۔ مثلاً یوم اقبال کے حوالے سے منعقدہ تقاریب میں سے سب سے بڑی تقریب جناب مجید نظامی کی سرپرستی میں الحمرا میں منعقد ہوئی۔ یہ ایک خوبصورت، پروقار، جامع اور مربوط تقریب تھی۔ خود جناب نظامی صاحب مزار اقبال پر بھی تشریف لے گئے اور جوش و خروش سے پھولوں کی چادر چڑھانے کے علاوہ طالب علموں کی اقبال سے محبت کا عمل دیکھا اور سراہا۔
اقبال کے حوالے سے یہ پورا ہفتہ ہی ہنگامہ خیز رہا۔ پنجاب یونیورسٹی میں ڈائریکٹر ماس کمیونی کیشن ڈاکٹر احسن اختر ناز نے بھی ایک باوقار تقریب برپا کر ڈالی۔ اس تقریب کا موضوع تھا ”اقبال، نوجوان اور میڈیا۔“ تقریباً ایک درجن سے زائد طلبہ و طالبات نے اس موضوع پر جدید اور ارفع خیالات کا انوکھے انداز سے اظہار کیا۔ تقریب کی صدارت سجاد میر نے کی۔ مصنفین کے فرائض پروفیسر شفیق کمبوہ، عارفہ صبح خان اور لبنیٰ شاہین نے انجام دیے۔ اقبال اور نوجوان کے موضوع پر طالب علموں نے اچھوتے انداز میں اظہار خیال کیا۔
دیکھنے میں آیا کہ شعبہ ابلاغیات کے طالب علم فہم و ادراک کے سینے چیرتے ہوئے اقبال شناسی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ طلبہ و طالبات کے اقبال سے متعلق افکار و خیالات میں تکریم، عقیدت، محبت کے ساتھ علمیت کی خوشبو بھی آ رہی تھی۔ یہ خوشی کا لمحہ تھا کہ آج کے نوجوان اپنے عظیم فلسفی، اپنے قومی شاعر اور ایک صاحب علم انسان کے متعلق واجبی اور روائتی معلومات نہیں رکھتے بلکہ انہوں نے اقبال سے علمی، ادبی، قلبی اور روحانی رشتہ استوار کر رکھا ہے۔ سرکاری چھٹی کے باوجود حمید نظامی ہال کھچا کچھ بھرا ہوا تھا۔ ڈائریکٹر ڈاکٹر احسن اختر نازنے کئی بار نوائے وقت کا نام تزک و احتشام سے لیا۔ ہال کا نام بھی نوائے وقت کے بانی سے منسوب ہے اور شعبہ ابلاغیات کے طالب علم نوائے وقت کے ایڈیٹر انچیف کے بارے میں گہرے جذبات رکھتے ہیں۔ اس کا اظہار وہ گاہے بگاہے کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے اقبال کے ذکر کے ساتھ ساتھ نوائے وقت اور مجید نظامی صاحب کا ذکر خیر بھی چلتا رہا۔
ڈائریکٹر شعبہ ابلاغیات ڈاکٹر احسن اختر ناز نے ایک سنجیدہ تقریری مقابلے میں اپنے شوخ و شنگ لہجہ اور دلچسپ باتوں سے تقریب کو عام تقاریب کی طرح بوجھل، ناگوار اور بورنگ نہ ہونے دیا۔ صدر مجلس سجاد میر نے اقبال کی نوجوانوں سے محبت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اقبال کے فن کی گہرائی کے علاوہ میڈیا کے حوالے سے کئی اہم نکات اٹھائے۔
تقریب کے اختتام پر جیتنے والے طالب علموں کو انعامات سے نوازا گیا۔ اتفاق سے کسی بھی طالبہ نے پوزیشن نہیں لی۔ آج خوش اس بات کی ہے کہ اقبال کو شعور سے سمجھنے والے موجود ہیں اور اقبال کے شاہینوں کو دیکھ کر یقین ہو گیا ہے اقبال کی روح ان نوجوانوں میں حلول کر رہی ہے۔ گویا پاکستان کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ یہ ایک خوبصورت، یادگار اوربھرپور محفل تھی جہاں نوجوان طالب علموں نے اپنے جوش خطابت سے تقریب کو گرمائے رکھا۔ اقبال کی روح کو سرور ملا ہو گا اور عالم بالا میں اقبال نے سکھ کا سانس لیا ہو گا کہ ....
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں