ایجرٹن روڈ پر پی آئی اے کی بلڈنگ میں آگ بھڑک اُٹھی، ایک فلور جل گیا۔
آگ پی آئی اے کے پیچھے ہی کیوں پڑ گئی ہے، کبھی اُڑتی فلائیٹ میں لگ جاتی ہے تو کبھی کھڑے انجن میں بھڑک اُٹھتی ہے۔ پی آئی اے اپنے آپ کو ہی ”پی“ رہی ہے۔ ”اونٹ رے اونٹ تیری کونسی سے کل سیدھی“ کی طرح پی آئی اے سے بھی پوچھا جا سکتا ہے لیکن اس کی بھی کوئی ”کل“ سیدھی نہیں۔ پی آئی اے تو ایشیا میں چلنے والی اکثر ائر لائنز کی ”ماں“ ہے کیونکہ انہوں نے اسی سے ہی جنم لیا لیکن آج انکی ترقی اوجِ ثریا کو چھو رہی ہے۔ ویسے کرپشن اور لوٹ مار میں پاک ائر لائن بھی ستاروں کو چھو رہی ہے‘ اس لئے ”ربڑی گیند“ کی طرح ٹھپے کھاتی ہے، اور اُترتے وقت تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے فورٹریس میں لگے جھولے ہچکولے کھا رہے ہوں۔ انجن کی آواز یوں سمجھئے جیسے کوئی ”گدھا“ ہانک رہا ہو، جناب والا اب صرف ائر پورٹ دیکھنے کے قابل ہیں جہاز نہیں۔ ائر پورٹ پر تو ابھی چیلوں کی اجارہ داری ہے، چمگادڑیں تو چشمہ لگانے کے باوجود نظر نہیں آتیں۔ جب سے موٹر وے بنی ہے تب سے تو پنڈی کا سفر لوگ پی آئی کی بجائے زمینی ہی کرتے ہیں کیونکہ اکثر پرائیویٹ ائر لائنز نے تو صرف اپنی فلائٹ کی ہی انشورنس کروائی ہوتی ہے عوام کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔ ہماری آگ سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ پی آئی اے کا پیچھا چھوڑ کر ان لوگوں کو لگے جو پی آئی اے کو ”لگے“ ہوئے ہیں کیونکہ لوگ تو پی آئی اے کو ایسے ”چوس“ رہے ہیں جیسے ”جونک“ خون چوستی ہے۔
٭....٭....٭....٭
وزارتِ داخلہ نے مردوں کے پاسپورٹ کی میعاد 10 سال کرنیکی منظوری دیدی، خواتین اور بچوں کو یہ سہولت نہیں دی گئی۔
خواتین اور بچوں کا کیا قصور ہے؟ انکے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک آخر کیوں؟ وزیر داخلہ کی اپنی بیگم محترمہ کے ساتھ کہیں لڑائی تو نہیں ہو گئی، کم از کم اس کا ہی خیال رکھ لیتے، ایک طرف تو آپ خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں انہیں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنے کا اعلان کرتے ہیں، لیکن پاسپورٹ کی میعاد سے لگتا ہے کہ وہ ”ڈھنڈورا“ پیٹتے ہیں۔ وزارت داخلہ کے ارباب بست و کشاد کا علاج تو یہی ہے کہ شام کو جب گھر جائیں تو بیگم صاحبہ ”ڈوئی“ پکڑ کر دروازے پر کھڑی ہوں اور بچے گلے ملنے کی بجائے منہ دیوار کی طرف کر کے کھڑے ہوں تو جناب کو ”لگ پتا“ جائے اور اگر بیگم کے حکم پر چوکیدار نے دروازہ ہی نہ کھولا تو سخت سردی میں باہر کھڑے کھڑے نانی یاد آ جائے گی کیونکہ جناب افسر صرف دفتر میں ہیں، گھر کی آفیسر تو بیگم ہی ہوتی ہے، اس سے بہتر یہی ہو گا کہ ان تمام پریشانیوں سے بچنے کیلئے فی الفور خواتین اور بچوں کو مردوں کے برابر سہولیات دی جائیں۔
”خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے“
اگر میاں جی کے پاسپورٹ کو دیکھ کر بیوی جی نے کہا کہ میرا پاسپورٹ پانچ اور آپکا دس سال کا، تو ایک خوامخواہ لڑائی شروع ہو جائے گی اور پھر بات ضد اور میں نہ مانوں تک آ پہنچے گی اس لئے بہتر ہے لڑائی جھگڑے شروع ہونے سے قبل ہی دونوں کی مدت یکساں کر دی جائے۔
٭....٭....٭....٭
ملکی تاریخ میں پہلی بار بلوچستان کابینہ کا اجلاس اسلام آباد میں ہُوا۔ اسلم رئیسانی نے صدارت کی۔
لگتا ہے بلوچستان کابینہ کی دُم کبھی سیدھی نہیں ہو گی ”اک چوری اتوں سینہ زوری“ پہلے غیر قانونی اجلاس بلائے جا رہے ہیں وہ بھی بلوچستان کے پہاڑوں کی بجائے سپریم کورٹ کی ”بغل“ میں۔ رئیسانی تو پہلے ہی اسلام آباد میں شب و روز گزارتے ہیں، یہ تو ایسے ہی ہے کہ ایک آدمی سُسرال کے گھر میں بیٹھ کر بچوں کی شادیاں کرے۔ کوئٹہ میں لاشیں گر رہی ہیں، وہاں کے عوام صاف پانی پینے کو ترس رہے ہیں، دو وقت کی روٹی کیلئے بچے بیچے جا رہے ہیں اور کابینہ اسلام آباد خوش گپیوں میں مصروف ہے۔ ٹی اے، ڈی اے سمیت اسلام آباد اجلاس کا تخمینہ لگایا جائے تو رئیسانی کی محب الوطنی سامنے آ جائے گی۔ اب رئیسانی اقتدار کیساتھ ایسے چمٹے بیٹھے ہیں جیسے بقیہ ساری زندگی انہوں نے بلوچستان ہا¶س میں ہی گزارنی ہے۔ انکے طنز و مزاح کو دیکھ کر تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ فیصل آبادی ہیں کیونکہ جُگت بازی اور گفتگو میں طنز کے ماہر تو یہی ہیں۔ اب رئیسانی یہ کہہ دیں کہ جناب بلوچستان ہا¶س میں اجلاس کرنا میرا حق ہے کیونکہ میں بلوچی ہوں، رہی بات ہا¶س کی تو وہ اسلام آباد میں ہو یا کوئٹہ میں ”ہا¶س ہا¶س“ ہی ہوتا ہے۔ اس طرح تو حضور والا لاہور میں بھی کسی بلڈنگ کو بلوچستان ہا¶س کا نام دیکر اجلاس کر سکتے ہیں۔ چلیں اقتداری نشے کے چار دن باقی ہیں۔
٭....٭....٭....٭
کراچی ائر پورٹ پر امریکی سفارتکار کے بیگ سے گولیاں برآمد، تحریری معافی پر چھوڑ دیا گیا۔
فرض کریں اگر کسی پاکستانی سفارتکار کے بیگ سے امریکی ائر پورٹ پر گولیاں برآمد ہوتیں تو اس کی معافی کافی ہوتی اور اسے یوں چند لفظوں کے بعد چھوڑ دیا جاتا۔ یقینی طور پر یہ ناممکن ہوتا۔ تو پھر آج ہم ہر امریکی شہری اور سفارتکار کو وائسرائے کا درجہ کیوں دیتے ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ قبل عمران خان کو ائر پورٹ پر روکا گیا، لیکن ہم پاکستانی گوروں کی ایک چھوٹی سی ”ہاں“ پر فدا ہو جاتے ہیں، اتنی تابعداری تو دکان کے آگے ریڑھی لگانے والا بھی دکاندار کی نہیں کرتا جتنی ہم امریکہ کی کرتے ہیں حالانکہ ریڑھی والے کا روزگار اسی ریڑھی سے وابستہ ہوتا ہے۔ کبوتر باز کی نظریں آسمان پر ہوتی ہیں وہ آنکھ نہیں جھپکتا کہ کہیں کبوتر آنکھوں سے اوجھل نہ ہو جائے۔ آج ہماری مثال اس کبوترباز جیسی ہے۔ ہم امریکہ کی جی حضوری میں آنکھیں کھلی اور ایڑیاں اٹھا کر دیکھ رہے ہیں کہ کہیں ان کا بلاوا آئے تو ہم کہیں اور متوجہ نہ ہوں اور وہ آنکھیں نہ پھیر لیں۔