سانحہ راولپنڈی- اے گرفتار ابوبکرؓ وعلیؓ ہوشیار باش

سانحہ راولپنڈی کیا تھا جذبات کی منفی آنکھ مچولی، آزادی اظہار رائے کا غیر ذمہ دارانہ استعمال جہاں آزادی نہیں وہاں کیا ہوا۔ مقبوضہ کشمیر میں پیری میں جوانوں جیسا جذبہ رکھنے والے سید گیلانی نے بتایا کہ اس سال نہ اہل تشیع کو 10 محرم کو اظہار غم کے لئے مروجہ جلوس نکالنے کی اجازت ملی نہ اہل سنت والجماعت کو نماز جمعہ میں خطابت کے جوہر دکھانے کا موقع دیا گیا۔ ہم جو آزادی کی قدر نہیں کر رہے آہستہ آہستہ خود کو انہی خطرات کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ سانحہ راولپنڈی میں جذبات کے منفی اظہار کا انجام کیا ہوا۔ تھانہ پیر ودھائی اور ٹبی میں دو الگ الگ ایف آر کا اندراج جن میں مسلمانوں کے دونوں گروپوں کی طرف سے ایک دوسرے کی قیادت اور کارکنوں پر مسجد اور امام بارگاہ کو جلانے سمیت مختلف الزامات درج ہیں انگنت دکانوں میں بے پناہ مالی نقصان، ملک بھر میں کشیدگی اور فرقہ واریت کی بجھی ہوئی راکھ میں نفرت کی چنگاریوں کا احیائ، شاعر نے اس کیفیت کا اظہار کیا؎…؎
غلام دوڑتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر ۔۔۔ محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے
علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا ’’اے گرفتار ابوبکر وعلی ہوشیار بارش! مگر چند ناعاقبت اندیش کسی بات پر دھیان نہیں دے رہے ہمارے حریف پڑوسی اپنی عبادت گاہوں، اپنے کھیل کے میدانوں، اپنے صنعت و حرفت کے مراکز، اپنے بازاروں، اپنے تعلیمی اداروں اور اپنے جمہوری اداروں کو آباد رکھے ہوئے ہیں۔ آسمان پر کمنڈ ڈالنے کے لئے خلائی راکٹ روانہ کر رہے ہیں اور ہمارے قائدین قوم کو تقسیم کرنے، عبادت گاہوں کو بارود سے اڑانے، کھیل کے میدانوں کو ویران کرنے، صنعت و حرفت کے مراکز کو جام کرنے، بازاروں کو آگ کی نذر کرنے، تعلیمی اداروں کو سازشوں کے مراکز بنانے اور جمہوری اداروں کو بے وقار کرنے میں مصروف ہیں۔
 ہمارے ہاں طالبان اور مذہبی قائدین مناظروں کے خودکش کھیل پر بیان بازی کر رہے ہیں تیرہویں صدی کے آغاز میں سقوط بغداد کے وقت بھی ایسی ہی فرقہ بندی اور ایسے مناظرے عروج پر تھے اس سے پہلے سپین میں حکمران سیاسی قیادت اور حلیف مذہبی قیادت کا کردار کیا رہا اور پھر انجام کیا ہوا۔ کاش کوئی سپین اور سقوط غرناطہ کی تاریخ پڑھے۔ کاش کوئی بنو امیہ اور بنو عباس کے عروج و زوال کی داستان پڑھے، کاش کوئی ایک ہی عید میں موسی بن نصیر جیسے مغرب کے محاذ پر کامیاب سپہ سالار اور محمد بن قاسم جیسے مشرق کے محاذ پر کامیاب سپہ سالار کے انجام کو دیکھے اور مسلم قیادت کے درباری جوڑ توڑ سے پوری امت مسلمہ کے نقصان کا جائزہ لے۔ آج پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ امت مسلمہ کی بکھری ہوئی اکائیوں کو باری باری نشانہ بنایا جا رہا ہے عراق، افغانستان، مصر، لیبیا، شام سب ایک تلخ امتحان سے گزر چکے ہیں اور اب پاکستان کو نشان عبرت بنانے سے پہلے اندر سے توڑنے کے لئے فرقہ واریت کی آگ پھیلائی جا رہوی ہے۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری سے لے کر راولپنڈی میں قتل وغارت تک سب کچھ ایک منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ طالبان کے منفی رویے پر صرف نظر کرنا، پاک فوج کے جذبہ شہادت کو متنازعہ بنانا اور ایک آئینی دیوار کا سہارا لے کر سیاست کرنا نہ جمہوریت کی خدمت ہے نہ دین کی بلکہ اس ساری صورت حال سے فائدہ انہی پاکستان دشمن قوتوں کو ہو رہا ہے جو پاکستانی قوم کی اکائی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سانحہ راولپنڈی کیا تھا جذبات کی منفی آنکھ مچولی، لیڈروں کی اپنی اپنی ایٹنگ بڑھانے کی مہم مگر اس انا پرستی کا انجام ؟
جسے بھی دیکھئے کوئے انا کو جاتا ہے ۔۔۔ یہ راستہ ہے جو سچ مچ فنا کو جاتا ہے

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...