اسلام آباد (وقائع نگار+ آئی این پی) سپریم کورٹ نے تھری جی لائسنس نیلامی کیس کی سماعت 10 روز کیلئے ملتوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت سمجھنے سے قاصر ہے کہ یو ایس ایف فنڈز کا فائدہ پی ٹی اے کو کیوں نہیں دیا گیا۔ دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے لگتا ہے پی ٹی اے یہ چاہتی ہی نہیں کہ یو ایس ایف کی جانب سے دیئے گئے فنڈز اسے ملیں۔ جس نے بھی یہ کام کیا اسے منافع سمیت رقم واپس کرنا ہو گی۔ تھری جی لائسنس نیلامی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے کی۔ پی ٹی اے حکام کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ تھری جی لائسنس کی نیلامی کیلئے مختلف کنسلٹنٹ فرمز کی بولیاں موصول ہوئی ہیں اور اس پر پیشرفت جاری ہے۔ عالمی معیار کے مطابق کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کر کے نیکسٹ جنریشن پلس ٹیکنالوجی کی بولی کا آغاز کیا جائے گا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بولی کے عمل میں عوام اور میڈیا کو بھی شریک ہونا چاہئے۔ عدالت کے استفسار پر ڈپٹی اٹارنی جنرل عمران الحق نے بتایا کہ کمیونی کیشن نظام کیلئے مختص 62 ارب روپے فنڈز کے رولز میں ترمیم کر کے اسے کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیس عدالت میں زیرسماعت ہے، یہ کیسے ہو گیا ہے؟ جسٹس جواد ایس خواجہ نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ ہر طرف لوٹ مار مچی ہوئی ہے، جس نے بھی یہ کام کیا اسے منافع سمیت رقم واپس کرنا ہو گی۔ نیشنل بنک 62 ارب روپے پر ٹی ڈی آر کے تحت سالانہ 7 ارب روپے منافع بھی دے رہا تھا۔ آئی این پی کے مطابق سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ پی ٹی اے کے یو ایس ایف فنڈ کے 62 ارب روپے حکومتی فنڈ میں منتقل کرنا غیرآئینی ہے۔ بنچ نے کہا کہ سرکاری پیسہ ایک خاص مقصد کے لئے ہوتا ہے قومی خزانے کے ساتھ چھینا جھپٹی لگی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین توڑنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ مجوزہ فنڈ کا مقصد دور دراز علاقوں میں مواصلاتی سہولتوں کے لئے انفراسٹرکچر کی فراہمی تھا مگر غلط طریقے سے فنڈ منتقل کیا گیا۔ بڑے لوگ پھنس جائیں گے۔ عدالت نے کہا کہ تھری جی لائسنس کی نیلامی میں شفافیت بر قرار رکھی جائے ۔ میڈیا کو مکمل اجازت ہونی چاہئے کہ وہ نیلامی کے طریقہ کار کا جائزہ لے سکے۔ عدالت نے یو ایس ایف فنڈ کی منتقلی کے حوالے سے حکومتی موقف طلب کرتے ہوئے سماعت غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی کر دی۔