حریت قیادت کا مقبوضہ کشمیر میں انتخابی ڈھونگ کا بائیکاٹ

’’بگاڑ کر بنائے جا‘ ابھار کر مٹائے جا‘ میں ترا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا‘‘… کے مصداق بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں کشمیر میں سنگینوں کے سائے تلے 25 نومبر سے 23 دسمبر تک نام نہاد ریاستی اسمبلی (جموں و کشمیر قانون سازاسمبلی ) کی 87 نشستوں پر تین مرحلوں میں انتخابی ڈرامہ رچایا جا رہا ہے  جس کا آزادی پسند سیاسی جماعتوں اور حریت قیادت نے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے اس نام نہاد الیکشن میں حصہ لینے کو تحریک آزادی کشمیر سے غداری قرار دیا ہے اس بائیکاٹ مہم میں کشمیری قیادت حسب معمول میں دیوار زنداں ہے بابائے جمہوریت، پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے مرحوم چیئرمین نوابزادہ نصراللہ خان ناصر کے اس شعر کے مصداق کے…؎
ہم ہوئے گھر نظر بند تو یہ راز کھلا
آشیانے جسے کہتے تھے قفس ہے اپنا
حریت قائدین سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق گھروں میں نظر بند اور چوبیس سال تین ماہ کی قید کاٹنے پر ایمینسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے ضمیر کے قیدی قرار دیئے جانے والے بشیر احمد شاہ، ممتاز حریت پسند رہنما محمد یاسین ملک، نعیم احمد خان اور ظفر اکبر بٹ سمیت سینکڑوں کارکن جیلوں میں بند ہیں، کشمیری قیادت نے 1987ء میں مسلم متحدہ حجاز کے پلیٹ فارم پر آخری بار ریاستی انتخابات میں حصہ لے کر بیلٹ اور مذاق کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی کوشش کی تھی تو تاریخ کی بدترین دھاندلی نے انہیں بیلٹ کی بجائے بلٹ اور صندوق کی بجائے بندوق اٹھانے پر مجبور کر دیا اسی نام نہاد الیکشن میں سید علی گیلانی، خواجہ عبدالغنی لون، سید صلاح الدین، سید یوسف نسیم، غلام محمد صفی امیدوار کے طور پر حصہ لے رہے تھے۔ اس نام نہاد الیکشن میں صرف آٹھ فیصد ووٹ ڈالے گئے تھے اور بھارتی حکومت کی چھتری تلے عمر عبداللہ نیشنل کانفرنس کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ بن گئے تھے اس کے بعد 97ء تک کوئی الیکشن نہ ہوا اسی دوران گورنر راج بھی نافذ رہا اور اس کے بعد جب بھی انتخابی ڈرامہ رچایا گیا حریت قیادت نے اسے یکسر مسترد کرتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا کہ نام نہاد الیکشن حق خودارادیت کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ نئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ایک سال سے کم عرصے میں یکے بعد دیگرے مقبوضہ کشمیر کے تین دورے کئے ہر بار کشمیری قیادت کی کال پر مکمل ہڑتال کر کے اپنا موقف اوراحتجاج ریکارڈ کرایا گیا نریندر مودی نے دیوالی کا تہوار سیاچن پر بھارتی فوجیوں کے ساتھ منایا جبکے مقبوضہ وادی لہولہان میں تاریخ کے بدترین سیلاب اور بارشوں کے باعث ہونے والی تباہی پر بھارتی حکومت نے ریلیف کے حوالے سے غیر منصفانہ اقدامات کئے ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم میاں نواز شریف کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تاریخی خطاب کے بعد نریندر مودی کے ترک بہ ترک جواب پر حکومت پاکستان اور پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کو آر پار کی کشمیری قیادت کے ساتھ مل بیٹھ کر مقبوضہ کشمیر میں انتخابی ڈھونگ اور بھارتی ریشہ دوانیوں کے بارے میں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئیے تھا کہ حالیہ تحریک میں ایک لاکھ شہداء کی قربانیوں سمیت اب تک کشمیری عوام لاکھوں شہداء کی قربانیاں پیش کر چکے ہیں انہوں نے عسکریت کے بعد ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی کوشش کیں لیکن سلامتی کونسل کی نشست کا امیدوار بھارت مذاکرات کے ذریعے مسئلے کشمیر کا پرامن حل تلاش کرنے سے انکاری ہے اس نے حکومت پاکستان کو کشمیری قیادت کو آن بورڈ کر کے آئندہ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئیے کہ کشمیری ہی اس مسئل کے بنیادی فریق ہیں جو لازوال قربانیوں کی عظیم تاریخ رقم کر چکے ہیں…؎
جلتا ہے جن کا خون چراغوں میں رات بھر
ان غمزدوں سے پوچھ کبھی قیمت سحر

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...