مطالبۂ پاکستان کے اور کئی عوامل بھی ہو سکتے ہیں۔ مسلمان قوم متحدہ ہندوستان میں غیر مسلم اکثریت کے امتیازی سلوک سے پریشان تھی۔ مسلمانوں کی معاشی بدحالی کی بڑی وجہ بھی یہ تھی کہ انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں مسلمانوں کے مقابلے میں غیر مسلم اقوام اور بالخصوص ہندوئوں کی سرپرستی کی لیکن جس خطرہ نے مسلمانوں کو پاکستان کا مطالبہ کرنے پر مجبور کیا تھا وہ یہ تھا کہ متحدہ ہندوستان میں ہندوئوں کے غلبہ کی وجہ سے مسلمانوں کی روحانی اور اخلاقی اقدار کو نقصان پہنچنے کا خدشہ۔ مسلمان اپنی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کیلئے اس وجہ سے بھی بہت زیادہ پُرجوش تھے کیونکہ ایک آزاد مملکت میں ہی اسلام کی اعلیٰ ترین اقدار کو زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کیا جا سکتا تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے اللہ کے حضور بڑی عاجزی سے دعائیں کیں کہ انہیں ایک الگ اسلامی ریاست عطا کی جائے جہاں قرآن مجید میں ارشاد کردہ وہ احکامات نافذ کئے جائینگے جن احکامات کی بہترین مثال رسول کریمؐ کی اپنی عملی زندگی اور انکی قیادت میں مدینہ میں قائم ہونیوالی دنیا کی پہلی اسلامی ریاست تھی۔ رسول پاکؐکی اُمت کو قرآن کریم میں بہترین قوم قرار دیا گیا ہے، اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بنی نوع انسان کیلئے ایک مکمل فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لائے۔ یوں تو ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ شہری کے طور پر اپنے فرائض انتہائی ذمہ داری اور دیانتداری سے ادا کرے لیکن بطور مسلمان ہم پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اللہ ہمیں اپنی دی ہوئی نعمتوں کو دوسروں کی فلاح کیلئے استعمال کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اگر ہم خدا کے ایک ہی ارشاد پر عمل کریں تو ہمارے معاشرے میں مکمل انقلاب برپا ہو سکتا اور وہ ارشاد یہ ہے کہ ’’بھلائی اور بُرائی ایک جیسی نہیں، تم بُرائی کو بہترین چیز (نیکی) سے ختم کرو۔‘‘
قرآن میں کئی آیات میں حلال و طیب چیزیں کھانے اور حرام اشیاء سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس حکم میں بڑی دانائی اور گہرائی ہے۔ جو شخص حرام چیزیں کھاتا ہے اُس کا جسم ہی نہیں روح اور ذہن بھی بیمار ہو جاتا ہے۔ اگر آپکے جسم کیساتھ ساتھ آپکی روح بھی بدعنوان ہو جائے تو پھر آپ کبھی معاشرے کی فلاح اور اصلاح کیلئے کردار ادا نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے شراب نوشی اور جوئے کو گندے شیطانی کاموں کا نام دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کام کرنیوالا شیطان کی راہ پر چلنے والا ہے۔ کیا شیطان کی پیروی کرکے آپ معاشرے میں کوئی بہتری نہیں لا سکتے ہیں۔ شیطان کے نقش قدم پر چلنے سے تو معاشرے میں بگاڑ ہی پیدا ہو سکتا ہے۔ جب ہم ایک اسلامی معاشرہ وجود میں لانا چاہتے ہیں تو حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شیطانی دھندوں کو سختی سے روکنے کیلئے مؤثر اقدام کرے۔ قرآن حکیم میں ایک دوسرے کا مال، جائیدادیں باطل طریقے سے نہ کھانے کا سختی سے حکم دیا گیا ہے باہم رضامندی سے آپ ایک دوسرے سے تجارت یا لین دین کر سکتے ہیں مگر ناجائز طریقے سے اور ظلم و جبر سے کسی کی جائیداد اور مال وغیرہ چھین لینے والوں کو اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا ہے کہ ایسے لوگوں کی جگہ جہنم ہو گی۔ اپنی دولت کو رشوت کے طور پر حاکموں کو پیش کرنا اور پھر انکے ذریعے سے دوسرے کی جائیدادوں کو ناانصافی سے ہتھیانے کا عمل بھی اللہ کے نزدیک حرام ہے۔ پھر قرآن مجید میں یتیموں کا مال ناانصافی سے کھانے والوں کو جہنم کی آگ سے ڈرایا گیا ہے۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ اجتماعی طور پر بھی لازم آتا ہے کہ ہم قرآن کے احکامات پر عمل کریں، سیرت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال کر اسلامی طرز حیات کو فروغ دیں۔ خاص طور پر اگر ہمارے حکمران قرآن مجید کی تعلیمات اور رسول کریمؐ کی پاکیزہ سیرت کیمطابق اپنی عملی زندگی بسر کرینگے تو ہمارا معاشرہ خود بخود جنت نظیر بن سکتا ہے۔ اللہ کے بے پناہ فضل و کرم سے پاکستان کی صورت میں ہمیں جو آزاد سلطنت حاصل ہوئی ہے اس پر خدائے بزرگ و برتر کے حضور شکر ادا کرنے کی بہترین صورت یہی ہو سکتی ہے کہ ہم پاکستان میں اللہ کے فرمان کیمطابق اسلامی اقدار حیات پر سچے دل سے عمل کریں۔ اللہ نے تمام انسانوں کو اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے اور ہم جو اللہ کے آخری رسولؐ کی اُمت ہیں ہمارا تو یہ فرض ہے کہ ہم مکمل طور پر اپنے آپکو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے سپرد کر دیں۔
ہمارے حکمرانوں کو اللہ کے سچے خادم بن کر سیدھے راستے پر چلنے اور ہر بُرائی سے نفرت کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہو گا۔ کیا ہمارے حکمران خالق کائنات سے اپنی سچی وفاداری کے رشتے کو نبھا رہے ہیں، کیا ان کا دامن مالی بدعنوانیوں کے داغوں سے بھرا ہوا نہیں ہے؟ کیا ظلم و ناانصافی ان کا چلن نہیں بن چکا؟ کیا وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنی حکمرانی کے فرائض ادا کر رہے ہیں یا انکا ہر اقدام اللہ کے احکامات سے بغاوت کا مظہر ہے۔ اگر ہمارے حکمران اللہ سے ڈرتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرینگے تو اللہ کی مدد بھی اُنکے شاملِ حال ہو گی اور اللہ ہمیں اپنے ایسے غیبی خزانوں سے عطا کریگا جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔(جاری)