یہ ایک مانی جانی ہوئی صداقت ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا- اِس سے بھی بڑی صداقت یہ ہے کہ اسلام کے نام پر قیامِ پاکستان کی سرتوڑ مخالفت کی گئی تھی-جس زمانے میں پاکستان کا تصور پیش کیا گیا اور پھر یہ تصورِ پاکستان تحریکِ پاکستان بن کر مقبولِ خاص و عام ہوا اُس زمانے میںہمارے مختلف دینی مسالک کے زعماءنے اِس قومی ، اسلامی تحریک پاکستان کی ڈٹ کر مخالفت کی تھی- صرف مولانا شبیر احمد عثمانی کے سے چند علمائے کرام نے اپنے مسلک و مکتب کی اکثریت کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے کُل ہند مسلم لیگ کا ساتھ دیا تھا- جب قیامِ پاکستا ن کے بعد قائداعظم کی قیادت میں زرعی اصلاحات کی کمیٹی تشکیل پائی اور پھر اِس کمیٹی کی سفارشات سامنے آئیں تو مولانا شبیر احمد عثمانی سمیت اِن چند علماءنے بھی جاگیرداری نظام کے حق میں اور زرعی اصلاحات کی مخالفت میں تحریر و تقریر کے جوہر دکھائے تھے- اِس باب میں مولانا شبیر احمد عثمانی کی مختصر کتاب بعنوان ”زمینداری ، جاگیرداری اور اسلام “ ایک دستاویزی ثبوت کی حیثیت میں آج بھی موجود ہے- مذہبی مسالک اور مدارس کی جانب سے قیامِ پاکستان کی یہ مخالفت دینِ اسلام کی تفہیم و تعبیر کا شاخسانہ ہے-
مصورِ پاکستان اور مفکرِ اسلام علامہ محمد اقبال اسلام کی اُس حقیقی روح کو شہنشاہیت کی گرفت سے نجات دلا کر روحِ عصر سے ہم آہنگ کرنے کی خاطر مسلمان اکثریت کا ایک خطہءخاک حاصل کرنا چاہتے تھے تاکہ اسلام کی اس حقیقی روح کو زندگی کے مختلف شعبوں میں سرگرمِ کار کر کے ایک سچا اسلامی معاشرہ وجود میں لایا جا سکے- اُن کے پیشِ نظر طلوعِ اسلام کا وہ اوّلیں دور تھا جب اسلامی معاشرے پر نہ شہنشاہیت مسلط ہوئی تھی اور نہ ہی اِس شہنشاہیت کی دستگیر مُلّائیت سامنے آئی تھی-بانیانِ پاکستان حریّت ومساوات اور احترامِ آدمیت کا ایک سچا اسلامی معاشرہ وجود میں لانے کے تمنائی تھے- جب مسلمان تو موجود تھے مگر اِن میں شیعہ سُنّی کے سے فرقے ابھی وجود میں نہیں آئے تھے- یہ حقیقت تحریکِ پاکستان کے دوران ہندی مسلمانوں کے مختلف اور باہم متصادم فرقہ پرستوں کی فہم و فراست سے بالاتر ثابت ہوئی- اِدھروہ چھوٹی بڑی علمی موشگافیوں میں کھوئے رہے اور اُدھر عامة المسلمین نے اپنی اجتماعی رائے سے پاکستان قائم کر دکھایا-
قیامِ پاکستان کے بعد وہ قیادت ہم سے بہت جلد چِھن گئی جس نے تحریکِ پاکستان کو قیامِ پاکستان کی منزل پر لا پہنچایا تھا- اُس کے بعد ہم پر اُن سرکاری افسران کی حکومت مسلط کر دی گئی جن کی ذہنی ساخت پرداخت برطانوی ہند کے سول اور فوجی تربیت کے اداروں میں ہوئی تھی-ہمارے اِن حکمرانوں نے رُوس اور امریکہ ، اشتراکیت اور سرمایہ داری نظاموں میں سردجنگ کے زمانے میں امریکہ کا ساتھ نبھانے کی خاطر اسلام کی بجائے مُلّائیت کی سرپرستی کی- صدر ضیاءالحق کا دور آیا تو مُلّائیت کا نام اسلام ٹھہرا- کہاجانے لگا کہ ہمیں رات کا اقبال (شاعر) عزیز ہے ، دن کا اقبال (فلسفی اور سیاسی مدبر) سِرے سے درکار نہیں- پھر جب میاں نواز شریف صدر ضیاءالحق کے سیاسی و مذہبی ورثے کے امین بن کر قومی سیاست کے اُفق پر نمودار ہوئے تو اُنھوں نے بھی مُلّائیت ہی کو سہارا دیااور مُلّائیت ہی سے سہارا لیا- نوبت یہاں آ پہنچی کہ مُلّائیت سے انکار اسلام سے انکار کے مترادف سمجھاجانے لگا- وہ تمام مسالک جن سے وابستہ علمائے کرام تحریکِ پاکستان کی مخالفت میں سرگرم رہے تھے ایک مرتبہ پھرسرکاری سرپرستی میںسرگرمِ کار ہو گئے- ایک فرانسیسی سکالرAntonine Sfeir نے اپنی کتاب Islamism میں اس دورِ حکومت کو درج ذیل الفاظ میں یاد کیا ہے:
"The government sought unlikely allies in religious circles, leading to an attempt to impose the Shari'a and to a terminal breach with the country's liberals." (p.258)
اسلامی روشن خیالی اور انسان دوستی کی راہ سے منحرف اور باہم تصادم و پیکار میںمصروف اِن مذہبی دبستانوں کوافغانستان میں روس کے خلاف جنگ و جدل کی راہ پر ڈال دیا گیا- روس کی پسپائی کے بعد جن طالبان نے امن کی را ہ لی وہ اچھے طالبان ٹھہرے اور جنہوں نے کسی نہ کسی دوسرے محاذ پر جنگ جاری رکھی اُنھیں بُرے طالبان کا نام دیا گیا-اپنے گذشتہ ادوارِ حکومت کی مانند وزیراعظم نواز شریف نے اِس باربھی اچھے طالبان سے کام لینے کی کوشش کی مگر اپنی اِس مساعی میں ناکامی کے بعد افواجِ پاکستان کی ضربِ عضب مہم کو گوارا کیا- آج جب کہ ہمارے قومی اُفق پر اس فوجی مہم کی کامیابی کے آثار نمایاں ہیں وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نے بی بی سی سے اپنی خصوصی گفتگو کے دوران یہ سوال اُٹھا دیا ہے کہ ”پاکستان اُن شدت پسندوں کو کیوں نشانہ بنائے جو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں؟“ اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ تمام طالبان (شدت پسند) پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں- وہ جو قتل و غارت میں مصروف ہیں وہ بھی خطرہ ہیں اور وہ جوبانیانِ پاکستان کی اسلامی تعبیر سے ناآشنائے محض ہیں اور اپنے اپنے مسلک کے تنگ دائرے میں قید ہیں اوردیگر مسالک کو دائرہءاسلام سے خارج قرار دیتے رہتے ہیں، وہ بھی پاکستان کے لیے خطرہ ہیں-
ابھی کل کی بات ہے کہ سُنّی اتحاد کونسل پاکستان کے چیئرمین صاحبزادہ حامدرضا نے ”سپاہِ انقلاب “کے نام سے اپنا یوتھ وِنگ قائم کرنے کے عزائم کا اظہار کیا ہے- میری حقیر رائے میں یہ عزم و عمل بھی اسلام اور پاکستان ہر دو کے لیے کوئی نیک فال نہیں ہے- پاکستان نہ سُنّی فقہ کے نفاذ کی خاطر قائم کیا گیا تھا ، نہ فقہءجعفریہ کے نفاذ کی خاطراور نہ ہی اسلام کی کسی بھی اور فرقہ وارانہ تعبیر پر عمل کی خاطر- اِن فرقہ وارانہ مسالک کے پیروکاروں نے تو پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی- بانیانِ پاکستان کے پیشِ نظر تو اسلام کی وہ حقیقی روح تھی جو مسلمانوں میں فرقہ وارانہ مسالک کے نمودار ہونے سے پہلے ، بہت پہلے ، آنحضورﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے دوران کارفرما رہی تھی-اِسی روح کی ازسرِنوبازیافت قیامِ پاکستان کا محرکِ اوّل تھی- ہماری قومی قیادت کا اوّلیں فرض یہ ہے کہ وہ تمام فقہی مذاہب اور تمام مذہبی مسالک کے وابستگان کو جناب رسالت مآب ﷺ کے حضور لے چلیں، حقیقی اسلام کی پہچان کرائیں اور پھر اسلام کی اِس حقیقی پہچان کودورِ حاضر کے سیاق و سباق میں انفرادی اور اجتماعی لائحہءعمل بنائیں!