تعلیم اور صحت سے محروم پاکستانی بچے

کہتے ہیں کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اس بات کی علامت ہے کہ خدا ابھی انسانوں سے مایوس نہیں ہوا۔ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل کہلاتے ہیں اور ہر قوم اپنے مستقبل کے تحفظ کے لیے اپنے بچوں کی بہترین دیکھ بھال اور اچھی تعلیم کا بندوبست کرتی ہے۔ مگر نہایت افسوس کی بات ہے کہ پاکستان جہاں سب اپنے حال سے مایوس نظر آتے ہیں وہاں اچھے مستقبل کی بھی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی کیونکہ مستقبل کی باگ دوڑ سنبھالنے والے اس قوم کے بچوں کو صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔

اس سال فروری میں بچوں کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم سیو دی چلڈرن نے اپنی ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں یہ روح فرسا حقیقت بیان کی گئی کہ کہ نومولود بچوں کی ماوات میں پاکستان پوری دنیا میں سرِ فہرست ہے۔ سیو دی چلڈرن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک ہزار بچوں میں سے 40 بچے یا تو مردہ پیدا ہوتے ہیں یا وہ پیدا ہونے کے کچھ دیربعد جاں بحق ہو جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق زچہ و بچہ کے حوالے سے بھی پاکستان دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے۔ پاکستان میں ہر سال 2 لاکھ بچے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ بھارت کے مقابلے میں ہمارے یہاں تین گنا زیادہ بچے مرتے ہیں۔
افریقہ کا پسماندہ ملک نائیجیریا بھی پاکستان سے بہتر ہے۔ کیا سالانہ دو لاکھ بچوں کی یہ اموات قتل ہیں یا نہیں اور ہیں تو قاتل کون ہے؟ ہماری ناکامی اور نااہلی کی انتہا تو یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو پولیو سے بچانے میں بھی ناکام ہو چکے ہیں۔
پاکستان بچوں کے حوالے سے دنیا کا بدترین ملک بن چکا ہے اور حالت یہ ہے کہ یونیسیف کے مطابق پاکستان میں نو کروڑ بچوں کے لیے صرف پانچ ہزار ماہر اطفال ڈاکٹر موجود ہیں۔
اسپتالوں میں بچوں کے لیے صحت کی سہولتوں کا یہ حال ہے کہ کچھ عرصہ قبل اس خبر نے سب کو دہلا دیا کہ راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال میں ایک نومولود بچے کو چوہوں نے نوچ ڈالا، جبکہ فیصل آباد کے سب بڑے الائیڈ ہسپتال کے بچہ وارڈ میں مشینری خراب ہونے کے باعث صرف ایک سال میں دو ہزار سے زائد بچے جاں بحق ہو ئے ہیں جن میں سے ایک ہزار بچے صرف نرسری میں ہی جاں بحق ہوئے ہیں اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ الائیڈ ہسپتال میں موجود سات میں سے تین انکوبیٹر کام نہیں کر رہے جبکہ اور آٹھ میں سے چار وینٹی لیٹر خراب ہیں اور اس دوران بچوں کی بڑی تعداد عدم توجہ اور مناسب سہولیات موجود نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں جا چکی ہے۔
اسی طرح سندھ کے علاقے تھر میں جہاں صحرا میں کبھی مور ناچا کرتے تھے اب وہاں معصوم بچوں کے سروں پر موت رقص کر رہی ہے۔ اب تک بھوک کے ہاتھوں نوے سے زائد بچے دم توڑ چکے ہیں اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وزیراعلی سندھ فرماتے ہیں کہ یہ بچے بھوک سے نہیں بلکہ غربت کے ہاتھوں مرے ہیں جبکہ وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے ارشاد فرمایا ہے کہ ملک میں روزآنہ چھ سو بچے ہلاک ہو جاتے ہیں اگر تھر میں دو چار بچے مر گئے تو کون سی قیامت آ گئی۔
یہ ہے قوم کے رہنماوں کا قوم کے بچوں کے بارے میں سفاکانہ رویہ دوسری جانب جو بچے موت کے منہ میں جانے سے بچ جاتے ہیں ان کے لیے بھی زندگی ایک نہایت تلخ تجربہ ثابت ہو تی ہے اور انہیں روز مر مر کے جینا پڑتا ہے۔ ان بچوں کے لیے تعلیم صرف ایک خواب ہی رہتی ہے۔ ملک میں بچوں کی تعلیم کا کیا حال ہے اس کا اندازہ تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والی تنظیم الف اعلان کی ایک تازہ رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے ، اس رپورٹ میں اس تلخ حقیقت کا انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے تعلیم کے حق سے محروم ہیں جن میں 50 فیصد سے زیادہ بچوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں میں سے صرف دو کروڑ ستر لاکھ بچے اسکول جا رہے ہیں۔ پاکستان میں اسکول جانے والے بچوں میں زیادہ تر ریاستی اداروں میں پڑھ رہے ہیں لیکن بڑھتی ہوئی تعداد نجی اداروں میں پڑھ رہی ہے اور اس میں وہ بچے بھی شامل ہیں جو دینی مدرسوں میں پڑھ رہے ہیں۔ جس ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے اس ملک کے مستقبل کا اندازہ اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے تو پھر کہاں جاتے ہیں ؟ اگر ہم اپنے ارد گرد نگاہ ڈالیں تو ہمیں بے شمار بچے دوکانوں پر، ورکشاپوں میں ، سڑکوں کے سگنل پر ، فیکٹریوں میں ، اینٹوں کے بھٹوں پر مشقت کرتے دکھائی دیتے ہیں ، ان کے ننھے کاندھوں پر اسکول کے بستے کے بجائے پیسے کمانے کا بھاری بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ ان کا معصوم بچپن فیکٹریوں کے دھویئں اور گاڑیوں کے شور میں دفن ہو جاتا ہے ، ان بچوں کے خواب چھین لیے جاتے ہیں اور ہم سب اس کے مجرم ہیں۔ ہمارے بچے صلاحتیوں میں کسی سے بھی کم نہیں وہ جو اقبال نے کہا ہے کہ ....
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویران سے
زرا نم ہو یہ مٹی تو بہت زرخیز ہے ساقی
تو یہ بات بالکل سچ ہے کہ اس قوم کی مٹی تو بہت زرخیز ہے بس ہماری ننھی کونپلوں کو تعلیم کی آبیاری کی ضرورت ہے ، اور جن بچوں کو بہتر مواقع دیئے گئے انہوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ دنیا کی سب سے کم عمر مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ارفع کریم بھی اس ملک کی بچی تھی ، نوبل انعام جیتنے والی ملالہ یوسف زئی بھی اسی دھرتی کی پیداوار ہے ، صرف آٹھ سال کی عمر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکورٹی کا اعزاز حاصل کرنے والے ننھے ہزیر کا تعلق بھی پاکستان سے ہی ہے۔
پانچ سال کی عمر میں دنیا کے کمسن ترین مایئکرو سرٹیفایئڈ پروفیشنل کا امتحان پاس کرنے والا ننھا ایان قریشی کا تعلق بھی اسی سر زمین سے ہے ، یہ صرف چند مثالیں ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ اگر ہمارے بچوں کو اچھی تعلیم دی جائے تو وہ دنیا کے ہر میدان میں آگے نظر آئیں گے۔ اور یہ صرف حکومت ہی نہیں بلکہ پوری قوم کی ذمہ داری ہے کہ ہمارے بچوں کو تعیلم دینے کے لیے سب اپنا اپنا کردار ادا کریں اب ہمارے پاس مزید غفلت کی گنجایئش نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن