مَیں 1964ءمیں سرگودھا میں ” نوائے وقت“ کا نامہ نگار تھا۔ ایک دِن مَیں تھانہ سٹی کے ایس ایچ او سے مِلنے گیا۔ واپسی پر مَیں نے دیکھا کہ تھانے کے صحن میں ایک موٹا تازہ پولیس کانسٹیبل اُلٹا لِٹائے گئے پندرہ سولہ سالہ لڑکے کے جِسم پر کُود رہا ہے اور اُسے کہہ رہا ہے کہ ”اوئے گورنمنٹ دے گھر چوری!“ پتہ چلا کہ ”اُس لڑکے نے کانسٹیبل کے گھر سے پِیتل کا گڑوا (ٹونٹی والا لوٹا) چوری کر لیا تھا۔ مجھے اُس وقت پتہ چلا کہ پولیس کانسٹیبل بھی ”گورنمنٹ ہوتا ہے۔“ تو معزز قارئین و قاریات! 51 سال بعد کل مَیں نے خبر پڑھی اور ٹیلی ویژن پر سُنی کہ وزیراعظم میاں نوازشریف اور وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کے مرحوم بھائی میاں عباس شریف کے گھر یعنی ”گورنمنٹ دے گھر چوری“ ہو گئی ہے۔ مرحوم میاں عباس شریف کے گھر میں اُن کی بیوہ، بیٹی اور داماد رہتے ہیں۔ ”گھر کی دو ملازم خواتین پر چوری کا شُبہ ہے، جو لاکھوں روپے کے زیورات اور نقدی لے کر فرار ہو گئی ہیں۔ پولیس کے اعلیٰ حُکام موقع واردات پر فوراً پہنچ گئے۔ مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔“ چوری چھوٹی موٹی ہوتی تو شریف خاندان کوئی پرواہ نہ کرتا لیکن لاکھوں روپے کا نقصان ہُوا تو چور خواتین کو سزا کیوں نہ دِلوائی جائے؟ پنجاب پولیس مسروقہ زیورات اور مال برآمد کر کے مفرور ”چور مُلزمات“ کوسزا دِلوا دے گی لیکن اُنہیں اُن کے ” جُرمِ بے وقوفی“پر بھی سزا مِلنا چاہئے۔ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے مرحوم بھائی کے گھر چوری۔ پَرلے درجے کی بے وقوفی نہیں تو اور کیا ہے؟
یہ محض اتفاق ہے کہ ”آج سے 5 سال پہلے 13 نومبر 2010ءکو شریف برادران کے ماڈل ٹاﺅن کے محلّات کے قریب علی اسٹریٹ Q بلاک میں لاہور کی ایک شادی میں شرکت کے لئے اسلام آباد سے آنے والی میری بیٹی عاصمہ اور داماد معظم ریاض چودھری کو اُن کے 5 ماہ کے بیٹے علی امام کی کنپٹی پر پستول رکھ کر ڈاکوﺅں نے زیورات اور نقدی سے محروم کر دِیا تھا۔ اِس لحاظ سے ڈاکو شریف تھے کہ انہوں نے اُن کی گاڑی نہیں چھینی۔ پرچہ درج ہُوا لیکن ڈاکو خادمِ اعلیٰ کے گائے جانے والے شعروں سے خوفزدہ نہیں ہوئے۔ مَیں نے لِکھا ....
”پنجاب بھر میں خادمِ اعلیٰ کا حُسن انتظام
علیؓ کے نام کی گلی میں لُٹ گیا علی امام“
اب کیا کروں کہ میاں عباس شریف کے گھر چوری پر مجھے کوئی شعر نہیں سُوجھ رہا؟
جنرل راحیل شریف کا دورہ¿ امریکہ
چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف امریکہ کے دورے پر ہیں۔ موصوف نہ صِرف حکومتِ پاکستان بلکہ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے والی پاکستان کی مسلح افواج کے بھی ترجمان ہیں۔ وہ بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو ایک بار پھر اجاگر کرنے پر عوام کے جذبات کی بھی نمائندگی کر رہے ہیں۔ انہوں نے وزیر خارجہ جان کیری وزیرِ دفاع ایشٹن کارٹر اور دوسرے اہم امریکی عہدیداروں پر واضح کر دِیا ہے کہ ”خِطّے میں مستقل قیام امن کے لئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے“ اور یہ بھی کہ ”پاکستان امریکہ کے ساتھ باہمی دلچسپی اور احترام پر مبنی تعلقات چاہتا ہے۔“ بین الاقوامی اور قومی میڈیا میں جنرل راحیل شریف کے دورہ¿ امریکہ کو خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔
حیرت ہے کہ ہمارے بعض میڈیا پرسنز، مسلم لیگ کے وفاقی اور صوبائی وزراءکو 10 نومبر کو اسلام آباد میں کور کمانڈرز کانفرنس میںجنرل راحیل شریف کے اُس خطاب کی یاد دِلا کر نہ جانے کیوں چھیڑتے ہیں؟ جب جنرل صاحب نے کہا تھا کہ ”دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے آپریشن ضرب اُلعضب کے نتائج کو دیرپا بنانے کے لئے اتنی ہی بہتر "Governance" (حکومت/ طرزِ حکمرانی) بھی ضروری ہے۔“ آئی ایس پی آر نے جنرل صاحب کے اِس بیان کا پریس ریلیز بھی جاری کر دِیا تھا۔ جواب میں وفاقی حکومت کے ترجمان کی طرف سے بھی ”پاک فوج کے اثر و رسوخ سے آزاد وفاقی حکومت کا، عوام سے ” تعارف کرادِیا گیا تھا۔
پارلیمنٹ میں اِس صورتِ حال پر خوب بحث ہُوئی۔ یہ کافی تھا، اِس کے باوجود بعض وفاقی وزراءنے بِلا ضرورت زبان و بیان کے جوہر دکھائے۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے نہ جانے یہ کہہ کر کیا تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ”آرمی چیف کا دورہ وزیراعظم نواز شریف کے دورہ¿ امریکہ کا "Follow Up" ہے۔ البتہ وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے یہ کہہ کر غلط فہمیاں دُور کرنے کی کوشش کی ہے کہ ”آرمی چیف کو بیرونی دَوروں کے لئے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اُن کا دورہ دو ہفتے پہلے سے طے تھا۔“ (یعنی وفاقی حکومت کو "Governance" بہتر بنانے کا مشورہ دینے سے پہلے ۔جنرل راحیل شریف نے تو گذشتہ سال نومبر میں بھی امریکہ کا دورہ کِیا تھا۔ اِس موقع پر امریکی مسلح افواج کی طرف سے جنرل راحیل شریف کو اعلیٰ فوجی اعزاز ”لِیجن آف میرٹ“ بھی دِیا گیا تھا۔ اُن دنوں بھی جنرل صاحب نے امریکیوں پر واضح کر دِیا تھا کہ ”پاکستان کے خلاف بھارت کی اشتعال انگیزیوں کے باعث دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کی مہم متاثر ہو رہی ہے۔“ اپنے حالیہ دَورے میں بھی اُن کا یہی مو¿قف ہے۔ ہمارے بعض سیاستدان جنرل راحیل شریف اور پاک فوج کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کر کے حکمرانوں کو کیوں خوفزدہ کر رہے ہیں۔“
مجھے ڈاکٹر مجید نظامی کے بسائے ہُوئے ڈیرے (ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور) میں گزشتہ سال 6 ستمبر کو یوم دفاع پاکستان کے موقع پر منعقدہ تقریب میں چیئرمین نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ کی حیثیت سے ڈاکٹر مجید نظامی کے جانشین جناب محمد رفیق تارڑ کے خطاب کے وہ جُملے یاد آ رہے ہیں کہ ”جنرل راحیل شریف کا تعلق پاک فوج کے شُہداءکے خاندان سے ہے اور وہ سیاست سے کوسوں دُور ہیں۔“ میاں نواز شریف نے جناب محمد رفیق تارڑ کو اپنی وزارتِ عُظمیٰ کے دوسرے دَور میں صدرِ مملکت منتخب کرایا تھا اور جب 12 اکتوبر 1999ءکوجنرل پرویز مشرف نے وزیرِاعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹا تھا تو اُس کے بعد جناب محمد رفیق تارڑ نے ایوانِ صدر میں جتنے دِن بھی گزارے۔ وہاں بیزار ہی رہے۔ جنابِ تارڑ 7 نومبر سے لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں فی الحال تارڑ صاحب کی عیادت کرتے ہُوئے مَیں نے قومی اخبارات یا کسی نیوز چینل پر جنابِ وزیراعظم کی تصویر نہیں دیکھی۔ جناب محمد رفیق تارڑ کی طرف سے اُستاد شاعر شعور نے نہ جانے کیسے کہہ دِیا تھا ....
”کمالِ صبر نے ہم کو بنا دِیا تصویر!“
جہاں تک باوردی جنرل کا سیاست میں آے کا تعلق، اگر کسی کے دائیں ہاتھ پر اقتدار کی لکیر ہو یا وہ خود کھینچ لے اُسے کون روک سکتا ہے؟ سپریم کورٹ آف پاکستان نے تو فوجی حکمرانوںکے بارے میں مختلف فیصلے کئے ہیں لیکن ہماری ”فیڈرل شریعت کورٹ“ اور اسلامی نظریاتی کونسل“ نے ہمیشہ خاموشی اختیار کئے رکھی یعنی عوام جانیں اور اُن کا کام مجھے یاد نہیں، نہ جانے کِس نے کہا تھا کہ ”میاں نواز شریف کو اپنے پاﺅں پر خود کلہاڑی مارنے کی عادت ہے۔“ مَیں نہیں مانتا لیکن علاّمہ اقبالؒ نے نہ جانے کِس موڈ میں کہا تھا ....
”پاس تھا ناکامی¿ صیّاد کا اے ہم صفِیر!
ورنہ مَیں اور اُڑ کے آتا، ایک دانے کے لئے“