ہر سانحہ اپنے اثرات چھوڑجاتا ہے جو کبھی ڈیپریشن اور کبھی طاقتور ردّ عمل کی صورت میں ان گنت سانحات کی وجہ بن جاتے ہیں۔اس صدی کا آغاز ہی 9/11 کے سانحہ سے ہوا جسکے اثرات نے گذشتہ 14سال سے پوری مسلمان دنیا کو آگ وخون میں نہلا دیا ہے۔ یہ تو واضح نہیں ہو سکا کہ کون سے افغانی نے یہ واردات کی تھی البتہ سزا کےلئے افغانستان ہی منتخب ہوا۔پھر اسکے بعد عراق کے WMD'sسے دنیا کو خطرہ لا حق ہونے کا سائرن گونجا اور اسکی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی مگر ایسے کوئی ہتھیار نہ مل پائے ۔بہر حال امریکہ اور برطانیہ نے سوری کیا جسے دنیا نے انکی اعلیٰ ظرفی تسلیم کر لیا۔اسکے بعد تیونس ، لیبیا،مصر اور یمن کی حکومتیں دسمبر 2010ءسے فروری2012ئ، صرف سوا سال کے اندر اندربہت بڑی ہزیمت کیساتھ الٹا دی گئیں۔ بحرین، شام، اردن،البحیریا، عراق، کویت، مراکش اور سوڈان میں بھی بہت زور دار تحریکیں ابھریں۔ البتہ ماریطانیہ، عمان،سعودی عرب،جبوتی اور فلسطین میں قدرے کم درجے کے احتجاج ہوئے جنھیں سنبھال لیا گیا۔ 2001ءمیں افغانستان اور2003ءمیں عراق حملے کے ردِ عمل کے طور پر جو مسلمان عسکریت پسند اٹھے انہیںبالواسطہ منظم اور مسلح کرنے کی ذمہ داری بھی امریکہ اور اتحادیوں نے سنبھال لی۔ تقریباً سات سال یہ عمل جاری رہامگر مسلمان ان خطرناک فورسز کے بننے اور انکی مستقبل میں ممکنہ کارروائیوں کا ادراک نہ کرسکے۔
یہ سب کیوں ہوا۔لاتعداد وجوہات پر بحث ہوتی رہتی ہے مگر ان سب پر جو دنیاوی مسلّمہ قانون حاوی ہے وہ یہی ہے کہ جہاں انتشار ہوگاوہا ں غیروں کی مداخلت اور بربادی خودپہنچ جاتے ہیں۔مسلمان ممالک میں فرقہ وارانہ اور اس سے آگے مسلکی ونظریاتی تفریق سخت ہوتی گئی ۔ملوکیّت،چاہے وہ شہنشاہی تھی جمہوری یا فوجی،نے عوام کو جکڑ رکھا تھااور جن کے سہارے ملوک جبر کو قائم رکھے ہوئے تھے انہوں نے ہی عوام کی آگہی کو آنچ دے کر ہاتھ میں اسلحہ پکڑا دیا۔لہذا انتشار بڑھ گیا اور ہر گروہ غیروں کا مرہونِ منت بن گیا۔ 9/11 کے بعد جن دو ممالک یعنی افغانستان وعراق پر فوج کشی کی گئی ان میں خاص مماثلت سامنے آئی۔
(1)حملہ آوروں کادونوں میں سے کسی بھی ملک پر قبضہ کر کے وہاں رہنا مقصود نہ تھا
(2)دونوں ملک جنگجو مسلمان تھے اورپہلے ہی جنگ وجدل سے کھوکھلے ہو چکے تھے
(3)دونوں ملک وسط ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں کثیرالجہات سٹریٹیجک مقاصد کےلئے موزون ترین تھے
(4)دونوں ممالک پر حملے کے جواز بے معنی اور سزا اس جواز سے بھی کہیں زیادہ تھی
(5)دنیا نے کوئی اخلاقی ردِ عمل ظاہر نہ کیا بلکہ اپنے اپنے مفادات پر سمجھوتے کر لئے ۔
ان حقائق سے اس صدی کی جنگی ڈاکٹرائن میں دو چیزیں شامل ہوئیں۔ ایک تو دہشت گردی جنگی حکمتِ عملی کا اہم جزوبن گئی دوسرا محکومیت (Subjugation) کیلئے فوجی قبضے کی بجائے ”تباہی-محتاجی-تعمیرنو“کا اصول متعارف ہوا ۔میں 2011ءمیں اس کا تجزیہ اپنی کتاب ”انقلاب پاکستان“ میں لکھ چکا ہوں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سارا قصور مغرب کا ہے؟اس کے جواب میں ایک ضرب المثل کافی ہے ”جب جنگل کٹنے لگا تو درختوں نے آپس میں کہا کہ کلہاڑوں میں دستے تو اپنوں کے لگتے ہیں“۔
اس پس منظر میں لاکھوں جانیں جا چکی ہیں ۔ 16دسمبر 2014ءکو پشاور میں 140معصوم بچوں کے قتل نے پاکستانیوں کو جھنجوڑ کر کافی یکجا کر دیا جس کے اثرات میں اپریشن ضرب عضب کامیاب ہو رہا ہے۔ اب پیرس میں نہتے بے گناہ شہریوں کے قتلِ عام نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیاہے۔شائد القا عدہ اور داعش (ISIS) بنانے والے اور جسے روسی صدر پیوٹن کےمطابق کئی G-20 ملکوں سمیت 40 ملک فنڈ مہیا کرتے ہیں، محسوس کر رہے ہوں کہ ”چراغ سب کے بجھیںگے ہوا کسی کی نہیں“۔ مگر ان کا ردِ عمل پھر سے کوئی خاص مثبت نظر نہیں آ رہا۔پوری مسلمان دنیا سے پیرس سانحہ پر افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے مگر پوپ فرانسس کا اسے تیسری عالمی جنگ کا شاخسانہ قرار دینے کا بیان معنی خیز ہے۔فی الوقت تو ذمہ داری داعش سے تعلق رکھنے والے شام ،بلجیم اور فرانس کے شہریوں کے درمیان ہے آگے دیکھئے کون کون اسکی لپیٹ میں لایا جاتا ہے ۔دنیا کےلئے بہتر ہو گا کہ دہشتگردوں کو تو ضرور ٹارگٹ کیا جائے مگر کسی مسلمان ملک کو ملوث نہ کیا جائے تاکہ اس سانحہ پر مسلمانوں کی انسانی ہمدردیاں اور ظالموں کےلئے نفرت قائم رہ سکے۔ جو داعش کے خلاف مشترکہ جنگ میں مدد گار ثابت ہو نگی۔
دنیا کا منظر نامہ آئندہ وقتوں میں کیا بنتا ہے یہ اور چند ہفتوں میں واضح ہو جائےگاالبتہ ہمیں کس طرح اپنے ملک اور شہریوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے یہ ہماری آج کی سوچ کا محور ہونا چاہیئے۔وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف کے حالیہ دوروں سے، جنہیں میں کسی طرح بھی کسی اندرونی اختلاف سے لنک نہیں کرتا، پاکستان کےلئے حالات کچھ اس طرح کے بنتے نظر آرہے ہیں۔امریکہ ،چین اور ہندوستان کے تجارتی مفادات میں کافی ہم آہنگی پائی جاتی ہے لہذا ان سب کو اس خطے میں امن کی ضرورت ہے۔ اسی خطے کے امن میں ہماری دلچسپی اور اہمیت ان سب سے زیادہ ہے۔ یہ وہ فیکٹر ہے جس سے ہمیں امریکہ نے پھر سے قریب ہونے کا عندیہ دیاہے ۔امریکہ چاہے گا کہ ایک تو ہم سعودی عرب کی ملکی سلامتی اوراندرونی جنگ میں ان کے شانہ بشانہ لڑیں دوسرا ہندوستان کی امریکہ کے سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر خطے میں بالادستی تسلیم کرلیں اسکے بدلے میں امریکہ ہمارے ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کےخلاف مغربی میڈیا کے شور کو نظر انداز کر دے گا اور ہندوستان کو ہم پر جارحیت سے باز رکھے گا ۔اِدھر ہمیں کسی طرح بھی نہ تو ہندوستان کی بالا دستی تسلیم ہو سکتی ہے اور نہ کسی صورت بھی مشرقِ وسطیٰ میں کسی اندرونی جنگ کا حصہ بننا ہے۔امریکہ دباﺅ ڈالے گا مگر جن شعبوں میں اس نے وزیراعظم کے دورے کے دوران تعاون کا یقین دلایا ہے وہ انہی کے ذریعے خطے میں اپنی موجودگی پر قناعت کر لے گا ۔جو کہ اسکے ایران کے ساتھ حالیہ سمجھوتے کےلئے ایک معاون اپروچ بھی ہو گی ۔آئیں اپنے لئے کچھ اہداف قائم کر لیں۔
1۔اپنے یورپ ،کینیڈا اور امریکہ میں مقیم لاکھوں پاکستانیوں کو خوف سے نکالنے کےلئے خاص اقدامات کئے جائیں جن کو اس سانحے کی بدولت آئندہ بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
2۔داعش کے وجود کی پاکستان میں نفی کرنے کی بجائے وہ اقدامات کئے جائیں جن سے اسکی مستقبل میں حقیقی نفی کی جاسکے۔ مثلاًاسکے ہمدردوں یا ممکنہ ہمدردوں کو تلاش کر کے انہیں سنبھالا جائے ۔سوسائٹی کو مربوط کئے بغیر یہ کام ایجنسیوں کےلئے خاصا مشکل رہے گا۔ سانحہ پیرس پر مختلف طریقوں سے اظہارِ افسوس کرنےوالوں کو چاہیئے کہ اسی طرح ازخود اپنی گلیاں ایسے لوگوں پر بند کر دیںاور ریاستی اداروںکے ہاتھ مضبوط کریں۔
3۔اتنی لاشیں اٹھانے کے بعد بھی VIPسکیورٹی کے علاوہ ہر جگہ سکیورٹی خود فریبی ہی نظرآتی ہے۔ ہمیں اب بھی سکیورٹی کے تقاضوں اور مضمرات کو سمجھ کر اقدام کر لینے چاہئیں۔ تعلیمی اداروں اور اجتماعات پر خصوصی مانیٹرنگ کی ضرورت ہے۔
4۔قومی سطح پر جارح سفارتکاری چاہیے جس کے ذریعے ہم اپنے ملک کو ہر طرف سے محفوظ بنائیں اور مشرقِ وسطیٰ کی آئندہ جنگ سے خود کو باہر رکھ سکیں۔