پیرس میں دہشت گردی اور عالمی جنگ

داعش کے 8 دہشت گردوں نے 14 نومبر جمعہ کی رات پیرس میں مختلف جگہوں پر حملہ کر کے 129 شہریوں کو مار ڈالا۔ 67 کی حالت نازک اور 20 زخمی ہوئے۔ داعش نے ذمہ داری قبول کر لی۔ فرانسیسی صدر ہالینڈے نے اعلان کیا کہ ”ان حملوں کو ہم فرانس کےخلاف۔ اعلان جنگ تصور کرتے ہیں۔ داعش کی منصوبہ بندی بیرون ملک ہوئی جبکہ اندر سے بھی امداد فراہم کی گئی“۔ جرمنی کی چانسلر میڈیم مارکل نے کہا ”جرمنی فرانس کی پوری امداد کرےگا۔ ہم مل کر دہشت گردوں کو ڈھونڈ کر ماریں گے“۔ پوپ آف روم نے بیان دیا کہ یہ حادثہ تیسری عالمی جنگ کی شروعات ہیں“۔حملہ آور جو بمبار اور شوٹر تھے وہ سب مارے گئے۔ داعش نے پیغام نشر کیا کہ یہ طوفان کا پہلا جھونکا تھا۔ انہوں نے صلیبی فرانس پر حملہ کیا۔ حملہ آور با آواز بلند چلا رہے تھے کہ ”فرانسیسیوں جو تم نے شامی گروپ پر ہوائی حملے کر کے قتل عام کیا ہم اس کا بدلہ لے رہے ہیں؟

پیرس میں حالیہ دہشتگردی کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔ اسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ دنیا کے اس خوبصورت ترین شہر میں جہاں لوگ چھٹی کے دن تفریحی مقامات پر عیش و آرام میں مصروف تھے‘ کھیل کے میدانوں میں میچ ہو رہے تھے قاتلوں نے اندر جا کر نہتے شہریوں کو خاک و خون میں نہلا دیا۔ اس سانحہ سے عالمی امن خطرات سے دو چار ہو گیا ہے۔پیرس میں یہ سانحہ کن وجوہات کی بنا پر ہوا۔ اسکی وجوہات تو فرانس کی حکومتی انکوائری ٹیم ہی بتا سکے گی۔ لیکن قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں ‘ہو سکتا ہے۔
1۔ نیٹو کی فضائیہ نے جو شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔ وہاں جو خون خرابہ اور اموات ہوئیں اور لاکھوں شامی ملک چھوڑ کر بھاگ گئے اس کا یہ ردعمل ہو۔
2۔ چند ماہ پیشتر اسرائیلی وزیر اعظم نے فلسطین کو ”ریاست“ تسلیم کرنے پر فرانس پر سنگین نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہنے پر دھمکی دی تھی۔ ہو سکتا ہے یہ دہشت گردی اسرائیل نے کرائی ہو۔
3۔ ہو سکتا ہے وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ دوروں میں جو ذلت آمیز احتجاج ہوئے اور خاص طور پر پیرس میں جو مظاہرین نے مودی کی رسوائی کی۔ اس خفت کو مٹانے کیلئے بھارتی خفیہ ایجنسی را نے موساد سے مل کر یہ خونی تماشہ کیا ہو۔ پیرس میں اس دہشت ناک واقع سے دنیا والے مودی کی یورپ میں خفت بھول گئے۔
بھارتی ”را“ جو دہشت گرد ٹرینڈ اور مسلح کر کے پاکستان بھیجتی رہی ہے وہ اسی طرح خون خرابہ کرتے رہے ہیں جیسے پیرس میں ہوا۔
پیرس میں جو بھی ہوا وہ عالمی امن کیلئے برا شگون ہے۔ پوپ فرانسس نے سانحہ پیرس کو تیسری عالمی جنگ کا حصہ قرار دیا ہے۔ تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالیں۔ پہلی جنگ عظیم مقابلتاً کم جواز سے شروع ہوئی۔ آسٹریا کا شہزادہ آرج ڈیوک فرانس فرڈیننڈ اپنی بیوی کے ساتھ سراجیوو سرکاری دورے پر آیا۔ سراجیووان دنوں بوسینا کا دارالخلافہ تھا۔ اس خطہ کو Balcan کہا جاتا تھا۔ بوسینا کو آسٹریا نے اپنی حدود میں شامل کر لیا تھا۔ وہاں کے دہشت گردوں نے شہزادہ اور اس کی بیوی کو مار دیا اس دہشت گرد تنظیم کا نام Black Hard تھا۔ یہی حادثہ پہلی عالمی جنگ کا موجب بنا۔ اس جنگ میں ٹوٹل اموات اور زخمیوں کی تعداد 4 کروڑ 20 لاکھ تھی۔ ان دنوں نہ ایٹم بم تھا نہ ایٹمی ہتھیار۔ نہ ایٹمی کوٹڈ میزائل بنے تھے۔ نہ وہ رائفلیں اور مشین گنیں تیار ہوئی تھیں جو ایک منٹ میں سینکڑوں گولیاں برساتی ہیں۔ اور نہ سپر سانک لڑاکا طیارے اور نہ جنگی ہیلی کاپٹر نہ ڈرون اور نہ ایٹمی سب میرین۔ پھر بھی گریٹ وار نے اتنے کروڑ انسانوں کو نگل لیا۔ دوسری عالمی جنگ کا آغاز 1939 میں ہوا۔ مورخین لکھتے ہیں ”اگر حکومت برطانیہ اور اسکے اتحادی ہٹلر کی بڑھتی ہوئی جارحیت کو دیکھ کر اسے جارحانہ انداز سے بروقت روک لیتے تو دوسری عالمی جنگ نہ ہوتی“۔
3۔ چرچل The Second world war میں لکھتا ہے۔ ”شیطانوں کی جارحیت میں اس وقت اضافہ ہوا جب اتحادیوں نے انکے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے“۔ فیلڈ مارشل منٹگمری لکھتا ہے ”دوسری عالمی جنگ میں تقریباً 5 کروڑ انسان مارے گئے“۔
ہٹلر اپنی کتاب Meur kamp میں لکھتا ہے ”ورسیلیز کے امن معاہدہ میں جرمن قوم کو ذلیل و خوار کیا گیا۔ ہمارے سرحدی علاقے چھین لئے گئے۔ اس کے بعد صرف جنگ اور جنگ کی تیاری تھی۔ ان اوقات میں نازی سٹیٹ کو وار مشین بنا دیا جائےگا“۔
ثابت ہوا کہ پہلی جنگ عظیم کی وجہ شہزادے کا قتل اور دوسری ورلڈ وار ایک قوم کی تذلیل سے ہوئی۔ ان جنگوں میں 9 کروڑ انسان مارے گئے۔
بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے شروع میں بعض سپر طاقتوں (نیٹو ممالک) نے بعض اسلامی ممالک پر ذاتی مفادات اور جھوٹے الزامات لگا کر بھرپور حملے کئے۔ جن الزامات کی امریکی اور یورپی سربراہوں نے بعد میں تردید بھی کی اور بعض نے معافی مانگی۔ نیٹو کے ان چالیس ممالک کے حملوںمیں لاکھوں بے گناہ انسان مارے گئے۔ لاکھوں اپاہج اور اتنے ہی دوسروں ممالک میں پناہ گزین ہوئے۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام کے پرسکون ممالک تباہ و برباد کر دیئے گئے۔ ان ملکوں میں ایسی خانہ جنگی کرائی گئی کہ امن و امان ناپید ہو گیا۔ وہاں کے فرمانرواﺅں کو ذلیل کر کے پھانسیوں پر لٹکایا گیا۔اتحادی یہ جنگیں تو نہ جیت سکے لیکن انہی تباہ حال ممالک میں نازی ازم کی طرح دہشت گرد تنظیموں نے جنم لیا جن میں ایک داعش ہے۔ داعش نے شام، عراق، افغانستان کے بعد اب یورپی ممالک میں بھی اپنے قدم جمانے شروع کر دیئے ہیں۔ صدر بارک نے بھی داعش کو امن عالم کیلئے خطرہ قرار دیا ہے۔ داعش نے پیرس پر حملہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مارچ میں روم، لندن، اور واشنگٹن سمیت کئی اور شہروں پر دھاوا بولنے کی دھمکیاں دی ہیں۔ادھر روس نے صدر بشارالاسد کی حکومت بچانے کیلئے ایک لاکھ فوج اور لڑاکا طیارے شام بھیج دیئے ہیں۔ ادھر نیٹو اتحادی جوابی کارروائی کے لئے سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔
جنرل مرزا اسلم بیگ لکھتے ہیں ”پیوٹن جانتے ہیں کہ طالبان جنگ جیت چکے ہیں اور عنقریب وہ افغانستان کے حکمران ہونگے۔ لہذا روس کیلئے ضروری ہے کہ طالبان کے ساتھ مضبوط روابط قائم کرے۔ روس طالبان کو ہتھیار گولہ و بارود فراہم کر رہا ہے“۔
خدا کرے کہ شام میں نیٹو اور روسی افواج کا ٹکراﺅ نہ ہو جائے۔ داعش اور طالبان کا اتحاد نہ ہو پائے۔ طالبان اور حکومت افغانستان میں گفت و شنید کے ذریعے دوستانہ معاہدہ ہو جائے یہ پاکستان کیلئے اچھا شگون ہو گا۔ ایسے ہوتا نظر نہیں آتا۔

ای پیپر دی نیشن