جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتا ہے

Nov 20, 2016

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

بے نیازیاں ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

میں جمعرات کو میانوالی گیا تھا میرے گاﺅں موسیٰ خیل سے عزیزم جابر خان کی بارات آ رہی تھی۔ ہم میانوالی کلب میں بارات کے استقبال کے لیے خیمہ گاہ پہنچے مگر بارات ہم سے پہلے پہنچ گئی تھی۔ دولھے جابر خان کے والد جہان خان خلاص خیل میرے کلاس فیلو تھے جسے ہم گاﺅں والے ”جماعتی“ کہتے ہیں۔ بارات میں میرے کزن عبدالستار خان عبدالرزاق خان اور کئی لوگ تھے جنہیں میں نہ جانتا تھا۔ وہ بڑی زوردار محبت سے مجھے مل رہے تھے۔
ہمارے لوگوں کی خوشی کا اظہار دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ڈھول ڈھمکا اور شہنائی سے ایک عجیب ماحول بنتا ہے۔ سب لوگ بے تحاشا ناچتے ہیں۔ دو دوستوں کی ناراضگی ہو گئی تھی۔ ایک دوست نے دوسرے کو بیٹے کی شادی پر نہ بلایا وہ ڈھول کی آواز سن کر اپنے گھر کے صحن میں ناچنے لگا۔ یہ بھی کہا کہ تم مجھے بیٹے کی شادی میں نہ بلاﺅ مگر تم مجھے ناچنے سے تو نہیں روک سکتے۔
دولھے کا چچا بہت ممتاز اور دل والا امیر کبیر آدمی نادر خان بھی ناچتا ہوا بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اس کی عمر ساٹھ برس سے زیادہ تھی مگر وہ تازہ دم اور جوانوں جیسا تھا۔ اپنی فیملی میں ایک معروف اور سرکردہ آدمی تھا۔ ہم جب موسیٰ خیل میں تھے تو اس کا بہت نام سنا تھا۔ وہ بہت دھڑلے سے زندگی بسر کرنا جانتا تھا۔ اس کا رعب داب بھی تھا مگر وہ بہت شائستہ اور دوستدار آدمی تھا۔
مجھے دیکھ کر وہ اپنی نشست سے اٹھا اور مجھے ملا۔ ہم باتیں کرنے لگے۔ کچھ لوگ ہمیں دیکھ کر اکھٹے ہو گئے۔ باتیں کرتے کرتے اچانک نادر خان منہ کے بل دھڑام سے گر پڑا۔ سارے ماحول پر سکتہ طاری ہو گیا۔ جیسے اسے کسی نادیدہ ہاتھ نے دھکا دیا ہو۔ میں نے سمجھا کہ شاید اسے مرگی کا دورہ پڑاہے۔ میں نے وہاں کسی سے پوچھا کہ یہ تکلیف پہلے بھی کبھی اسے ہوئی ہے جس کا جواب نفی میں ملا۔ پہلے کبھی اسے کچھ نہ ہوا تھا۔ وہ ایک زبردست اور صحت مند آدمی تھا۔ بہادر اور بے باک تھا۔
لوگ اسے فوری طور پر اٹھا کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں لے گئے۔ خوشی کا موقع ایک سنگین گھمبیر اور غمزدہ صورتحال میں بدل گیا تھا۔ وہ دولھے کا سگا چچا تھا۔ تھوڑی دیر میں اطلاع پہنچ گئی کہ نادر خان فوت ہو گیا ہے۔ ایک کہرام مچ گیا۔ نادر خان جب گرا تو شاید اسی وقت مر چکا تھا۔ موت کا یہ رنگ میں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ مر تو ہم نے بھی جانا ہے۔ جو پیدا ہوا وہ مر جائے گا مگر حیرت ہے کہ اس طرح بھی ہو سکتا ہے؟ میرے اردگرد لوگ دم بخود تھے۔ لوگ رونا بھی بھول گئے تھے۔ غمزدگی اور فوت زدگی کی ملی جلی فضا میں ایک سراسیمگی تھی۔
لوگ ایک دوسرے کی طرف خالی خالی نظروں سے دیکھتے تھے۔ بڑے سوال تھے ہر نگاہ میں مگر جواب گم تھے۔ ہمارے میانوالی کے لوگ خوشی غمی میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوتے ہیں مگر آج تو خوشی غمی رل مل گئی تھی۔ مجھے تو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ خوشی کیا ہوتی ہے اور غم کیا ہے۔ ہم نے ان دونوں کیفیتوں کو الگ الگ رکھا ہوا ہے مگر یہ ایک دوسرے کے ساتھ گڈمڈ بھی ہوتی ہیں۔ خوشی کے اندر غم چھپا ہوا ہوتا ہے۔ ہم تو لاہور سے میانوالی خوشی کے کسی لمحے سے ہمکنار ہونے آئے تھے۔ یہاں تو غم کا ایک ہجوم تھا جس میں ہم اپنے آپ کو تلاش کرتے ہوئے بار بار گم ہوتے جا رہے تھے۔ سب کچھ بے کنار ہو گیا تھا۔
عزیزم بابر خان پی ٹی وی اسلام آباد میں ملازم ہے۔ اس سے رابطہ تھا۔ عزیزہ سمعیہ تو میرے گھر کی بچی ہے۔ وہ فیصل آباد یونیورسٹی میں ایم فل کرنے کے بعد پی ایچ ڈی شروع کرنا چاہتی تھی مگر اسے میانوالی کے ساتھ فیصل آباد چھوڑ کر اسلام آباد اپنے پیا گھر جانا تھا تو وہ سوچ رہی تھی کہ اسلام آباد میں پی ایچ ڈی کرے گی۔
وہ جب دلہن بنی شادی ہال میں پہنچی تو اس کی سہیلیوں نے ایک الجھن محسوس کی کہ شاید یہاں دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے۔ مگر کوئی میانوالی میں ایسے اجتماعات کی طرف توجہ نہیں کر سکتا۔ کہ یہاں سب لوگوں کے پاس اسلحہ ہوتا ہے اور وہ اسلحہ چلانا بھی جانتے ہیں چند دہشت گرد یہاں کیا کریں گے۔ مگر یہاں تو وحشت کا راج تھا اور وحشت کسی صورت دہشت سے کم نہیں ہوتی۔
کسی خاتون کو زرق برق بھڑکیلے شاندار کپڑے اور لباس اچھا نہیں لگ رہا تھا ایسے میں مجھے ایک حدیث رسول یاد آئی۔ میرے محبوب رسول کریم نے فرمایا کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ لباس زینت کے لئے ہے اور پردہ داری کے لئے بھی ہے۔ محسن انسانیت نے کیسی کیسی معنی آفریں گہری اور خوبصورت بات کی ہے۔ یہ زندگی خوشی اور غم کے امتزاج سے بنی ہے۔ بعض اوقات غم ایک پہاڑ بن کر گرتا ہے۔ سب کچھ پاش پاش کر دیتا ہے۔ مگر انسان سے مضبوط چیز اس کائنات میں نہیں ہے۔ میں دوسرے دن نادر خان کے بھائی جہان خان کے گھر گیا۔ یہاں ایک دن پہلے خوشی کے شادیانے بج رہے تھے۔ آج ماتم کے سارے رنگ بکھرتے جا رہے تھے۔ زندگی کبھی کسی کے لئے رکی نہیں۔ کوئی بتائے کہ زندگی کیا ہے؟ خوشی کا لمحہ کنارے پر کھڑا رہ جاتا ہے اور غم کا دریا بہتا رہتا ہے۔
خوشی کے ساتھ دنیا میں ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں
اچھے لباس والوں کے درمیان سب کچھ اپنا اپنا لگتا ہے۔ مگر اس لمحے میں اپنا آپ بھی بُرا لگنے لگ گیا تھا۔

مزیدخبریں