29 ستمبر کو مَیں اپنے میڈیکل چیک اَپ اور اپنے بیٹوں سے مِلنے کے لئے لندن گیا تو سالہا سال سے میرے لہوری دوست سیّد یوسف جعفری نے مجھے دو کتابیں تحفہ میں دیں۔ پنجابی کے صوفی شاعر حضرت میاں محمد بخش کی ” سیف الملوک“ اور پنجابی شاعرہ انجم قریشی کی ” مَیں تے املتاس“ ” سیف اُلملوک “ تو مَیں لڑکپن سے ہی پڑھ رہا ہُوں ۔ انجم قریشی صاحبہ سے اب واقف ہُوا ۔مَیں دو سال قبل امریکہ ، برطانیہ اور کینیڈا سے واپسی کے بعد وطن واپس پہنچا تو 9 اکتوبر 2014ءکو ”نوائے وقت“ میں میرے کالم کا عنوان تھا ....
” چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستان میری“
ہر طرف میری بکھری ہُوئی داستان ستمبر 1992ءمیں شروع ہُوئی جب میرا بڑا بیٹا ذوالفقار علی چوہان گریجویشن کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے ( اپنی مدد آپ کے تحت ) نیو یارک چلا گیا۔ مَیں سوچتا ہُوں کہ جن لوگوں کے بھائی / بیٹے پاکستان سے باہر چلے جاتے ہیں اور جن کے بزرگوں نے قیامِ پاکستان کی تاریخ کو اپنے خون سے رقم کر کے ” پرچمِ سِتارہ ¿و ہلال“ کے زیر سایہ اُن کی اولاد کو اچھے مستقبل کی ضمانت کیوں نہیں مِلتی ؟ وہ اپنے پیاروں سے دور کیوں چلے جاتے ہیں؟۔
ذوالفقار علی چوہان کے بعد میرے تین بیٹے انتصار علی چوہان ، انتظار علی چوہان اور افتخار علی چوہان برطانیہ اور بیٹی منزہ خلیل خان اپنے اہل و عیال کے ساتھ کینیڈا میں سیٹل ہوگئے تو مجھے احساس ہُوا کہ ” میری تسبیح کے دانے“ تو بکھر گئے ہیں 21 دسمبر 2001ءکو اللہ تعالیٰ نے ذوالفقار علی چوہان کو بیٹا عطا کِیا۔ مَیں نے اپنے پوتے شاف علی چوہان کی پیدائش پر پنجابی میں ” میرا لہو امریکی ہویا“ کے عنوان سے نظم لِکھی۔ نظم کا مطلع اور دو بند ہیں ....
” پہلاں ہَسیّا ، فیر مَیں رویا
میرا لہو ، امریکی ہویا
....O....
امریکہ ، کینیڈا ، یُو ۔ کے
لَے گئے ، میرے لعل دھرُو کے
کِیہ دسّاں ، مَیں کِیہ کجھ کھویا
میرا لہو ، امریکی ہویا
....O....
آس نہ ہوندی ، پُوری دِل دی
اپنے وطن ، روزی نئیں مِلدی
چوراں ، مال خزانہ لکویا
میرا لہو ، امریکی ہویا“
....O....
1947ءمیں نابھہ ، پٹیالہ اور امرتسر میں سِکھوں کے ہاتھوں میرے خاندان کے 26 افراد شہید ہُوئے ۔ میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلِسٹ) کارکن تھے ۔ پنجابی میری مادری زبان ہے ۔ قومی زبان اردو مَیں نے سکول میں سِیکھنا شروع کی ( ابھی تک سِیکھ رہا ہُوں) مَیں نے 1956ءسے اردو شاعری شرو ع کی۔ 1958ءسے پنجابی اور 1960 میں کُوچہ¿ صحافت میں کود پڑاتھا“ ۔ مَیں نے 1980ءمیں نے بابا فرید شکر گنج کے دوہے پڑھنے اور سمجھنے کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت گورو مکھی ( سِکھی پنجابی) سیکھی ( ابھی تک سِیکھ رہا ہُوں) اُس کے ساتھ ہی راجپوتوں کی قدیم تاریخ پڑھنے / سمجھنے کے لئے ہندی زبان سِیکھی ( ابھی تک سِیکھ رہا ہُوں)
30نومبر 2004ءکو وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی بھارتی پنجاب کے دورے پر گئے۔ مَیں اُن کی میڈیا ٹیم کا ایک رکن تھا۔ 2 دسمبر کو پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کے سائنس آڈیٹوریم میں ” عالمی پنجابی کانفرنس“ کے موقع پر میزبان سِکھوں اور پاک پنجاب کے مہمان شاعروں ، ادیبوں ، صحافیوں اور دانشوروں نے پنجابی زبان کی بنیاد پر پاک پنجاب اور بھارتی پنجاب کی سرحدی لکِیر مٹانے اور ” سانجھا پنجاب“ کے حق میں تقریریں کِیں۔ مَیں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ” مَیں پاکستان تے بھارت چ امن قائم کرن لئی اپنے شہیداں دا لہو تے معاف کر سکناں واں لیکن ( اپنے مُنہ پر ہاتھ پھیرتے ہُوئے )مَیں نے کہا کہ ” پاک پنجاب تے بھارتی پنجاب دی سرحدی لکِیر چ میرا لہو شامل اے۔ مَیں ایہہ لکِیر نئیں مِٹن دیاں گا“۔ مَیں سرکاری مہمان تھا اور مجھے معلوم تھا کہ ” سانجھا پنجاب کا کوئی بھی علمبردار میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا“۔
پاک پنجاب میں سانجھا پنجاب کے حامی ( سِکھوں کو خوش کرنے کے لئے ) مہاراجا رنجیت سِنگھ کو ” پنجاب کا ہیرو“ بنانے کے لئے ” ادھار“ ( بلکہ نقد بھی) کھائے بیٹھے ہیں ۔ میرا خیال ( بلکہ ایمان ) ہے کہ 1857ءکی جنگِ آزادی میں پنجاب کے ہیرو رائے احمد خان کھرل تھے / ہیں جنہوں نے دریائے ستلج سے دریائے راوی تک مسلمان راجپوتوں کے بڑے قبائل فتیانہ، کاٹھیا اور وٹو اور قبیلہ¿ قریش کے بہت سے مسلمان مجاہدوں کو ساتھ ملا کر انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر کے پنجابی مسلمانوں کا نام سر بلند کردِیا تھا / ہے ۔ انگریزوں کے ایک سِکھ ایجنٹ نے رائے احمد خان کھرل کو نماز پڑھتے ہُوئے شہید کردِیا تھا ۔ اپریل 2014ءمیں ” پِیر مہر علی شاہؒ ایرڈ ایگریکلچرل یونیورسٹی “ کے وائس چانسلر رائے نیاز احمد خان کھرل مجھے شہید رائے احمد خان کھرل کے مزار پر ”جھامرہ “ لے گئے تھے ۔ فاتحہ خوانی کے بعد مَیں نے کہا ....
” پُجّیا جدوں ، بہشتاں اندر ، دھرتی ماں پنجاب دا جایا
حُوراں تے غِلماناں احمد خان کھرل دا سہرا گایا“
ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کہا کرتے تھے کہ ” صوفی شاعراں دی پنجابی شاعری تے پنجابی زبان وی پڑھنی چاہیدی اے لیکن جیہڑی عام لوکاں دی سمجھ وِ چ وِی آ سکے“۔ نظامی صاحب یہ بھی کہا کرتے تھے کہ ”جیہڑے لوک سانجھا پنجاب دِی گل کردے نیں اوہ اَیتھوں ( پاکستان سے ) دفع ہو جان!“یکم اکتوبر 2012ءکو پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے جنابِ نظامی کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی جِس پر مَیں نے پنجابی میں نظم لکھی ۔ نظم کا ایک بند ہے ....
”اللہ ھُو تے ‘ عِشقِ نبی دی ‘ نماز نِےتی ‘ سُبحان اللہ
ستّر سال ‘ صحافت دی ‘ خدمت کِےتی ‘ سُبحان اللہ
پنج دہائِےاں تِےکر ‘ اےڈےٹر دا رول ‘ نبھاےا اے
بابا مجےد نظامی ‘ ہوراں تے ¾ ربّ ¾ رسول دا ساےا اے“
پاک پنجاب کے جو شاعر ، ادیب ، صحافی اور دانشور اپنی تحریروں میں بلاوجہ ”سِکھی بولی “ ( گور و مُکھی ) کے الفاظ شامل کرتے ہیں ۔ مَیں اُن کی ” ہدایت “ کے لئے دُعا ہی کرسکتا ہُوں ۔ شاعرہ انجم قریشی صا حبہ کی کتاب ” مَیں تے املتاس“ کی نظمیں پاک پنجاب میں بولی جانے والی پنجابی زبان میں ہیں ۔ جنہیں اردو دان طبقہ بھی پڑھ اور سمجھ سکتا ہے ۔ نظم کے تین بند ملاحظہ فرمائیں ....
”میری تسبیح دے دانے ہرے ہرے
ایہہ عجز ، عُفو دے نال بھرے
ایہہ کلمے کہندے کھرے کھرے
ایہہ جھوٹھی گل توں رہن پرہے“
....O....
”میری تسبیح دے دانے ہِیر لکھّن
بُلّھیاں دا ہاسا، نِیر لکھّن
تَینوں بابل ، ماہی، وِیر لکھّن
اوّل توں لے کے اخِیر لکھّن
....O....
میری تسبیح دے دانے بنھ لَے تُوں
تے ساریاں گلاں مَنّ لَے تُوں
پِیڑاں دِی ساری بَھن لَے تُوں
میرے تارے ، میرے چَنّ لَے تُوں“
مَیں نے محسوس کِیا کہ یہ نظم میری عمر کے لوگوں کی طرف سے لکھی گئی ہے ۔ جِن کی تسبیح کے دانے پوری دُنیا میں بکھرے ہُوئے ہیں اور وہ مادرِ وطن سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ ” اگر حکم ملے تو ہماری تسبیح کے دانے تاروں اور چاند کی طرح مادرِ وطن کو جگ مگ جگ مگ کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ اِس موقع پر شاعرِ سیاست کا ایک ماہِیا بھی ملاحظہ ہو....
”دوزخ توں ڈرائی جاندا
پِیر میرا گلّاں کردا
نالے تسبیح گُھمائی جاندا“