سیاسی اتحادوںکا عمل شروع

Nov 20, 2017

پاکستان میں آئندہ برس ہونے والے عام انتخابات کا وقت قریب آتے ہی ملک میں سیاسی جوڑ توڑ کا آغاز ہو گیا ہے۔جماعتِ اسلامی کے ہیڈ کوراٹر منصورہ میں ماضی کے مذہبی سیاسی اتحاد متحدہ مجلسِ عمل میں شامل چھ بڑی مذہبی سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے ایک اجلاس کے بعد اس سیاسی اتحاد کو دوبارہ بحال کرنے کا اصولی فیصلہ کیا جس کا باضابطہ اعلان آئندہ ماہ کراچی میں کیا جائے گا۔دوسری طرف ایم کیو ایم کا اتحاد اور پھر بٹوارہ۔تیسری جانب پرویز مشرف کی جماعت کا 23سیاسی جماعتوں سے اتحادیہ سب ہمارے کالم کا حصہ ہیںہیں۔

پاکستان کے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ نے’’ پاکستان عوامی اتحاد‘‘کے نام سے 23 جماعتوں کا گرینڈ الائنس قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ایک بڑا فیصلہ ہے کہ سب اکٹھے ہونا چاہتے ہیں اور ایک نام کے نیچے اکٹھا ہونا چاہتے ہیں۔ گرینڈ الائنس بنانے کی ابتدائی کوشش ہے اور ابھی اس الائنس کے ٹی او آر طے ہونے ہیں۔ پرویز مشرف سیاست میں ریلیونٹ ہونا چاہتے ہیں۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ کون سی جماعتیں ہیں جو اس اتحاد میں شامل ہو رہی ہیں۔ اگر تو یہ جماعتیں ٹانگہ پارٹیاں ہیں تو کیا فائدہ۔مشرف کا کوئی سیاسی مستقبل نظر نہیں آتا۔ اگر وہ پاکستان آتے ہیں تو وہ گرفتار کر لیے جائیں گے۔ ان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ اب تک اپنی گلوری بھول نہیں پائے۔گرینڈ الائنس میں آل پاکستان مسلم لیگ،پاکستان عوامی تحریک،مجلس وحدت المسلمین،سنی اتحاد کونسل،مسلم لیگ (جونیجو)،مسلم کانفرنس (کشمیر)،پاکستان مزدور محاذ،پاکستان سنی تحریک،پاکستان مسلم لیگ (کونسل)،پاکستان مسلم لیگ (نیشنل)،عوامی لیگ، پاک مسلم الائنس،کنزرویٹیو پارٹی،مہاجر اتحاد تحریک،پاکستان انسانی حقوق پارٹی،ملت پارٹی،جمعیت علما پاکستان (نیازی گروپ)،عام لوگ پارٹی،عام آدمی پارٹی،پاکستان مساوات پارٹی،پاکستان منارٹی پارٹی،جمعیت مشائخ پاکستان،سوشل جسٹس ڈیموکریٹک پارٹی شامل ہیں۔
لاہور میں جماعتِ اسلامی کے ہیڈ کوراٹر منصورہ میں بھی سیاسی گٹھ جوڑ جاری ہیں۔ ماضی کے مذہبی سیاسی اتحاد متحدہ مجلسِ عمل میں شامل چھ بڑی مذہبی سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے ایک اجلاس کے بعد اس سیاسی اتحاد کو دوبارہ بحال کرنے کا اصولی فیصلہ کیا جس کا باضابطہ اعلان آئندہ ما چند روز میں کیا جائے گا۔ 2002 کے عام انتخابات سے پہلے وجود میں آنے والی متحدہ مجلسِ عمل نے ان انتخابات میں نہ صرف قومی اسمبلی میں 40 سے زیادہ نشستیں حاصل کیں بلکہ وہ صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہو گئی تھی۔چھ جماعتی اتحاد کی اس کامیابی میں زیادہ تر حصہ جماعتِ اسلامی اور جمیعتِ علما اسلام (ف) کا تھا جن کے طرزِسیاست کے لیے اس وقت کے ملکی حالات انتہائی موزوں تھے۔سوال یہ ہے کہ کیا متحدہ مجلسِ عمل کی بحالی سود مند ثابت ہوگی۔ خصوصاً اس وقت جب اس میں شامل دو بڑی جماعتیں جماعتِ اسلامی اور جمیعتِ علما اسلام (ف) گذشتہ تقریباً پانچ سالوں سے ملک کی دو بڑی حریف جماعتوں کے ساتھ سیاسی اتحاد کیے ہوئے ہیں۔جماعتِ اسلامی صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت میں پاکستان تحریکِ انصاف جبکہ جے یو آئی ایف مرکز میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حمایتی ہے۔ کیا اب وہ پانچ سالہ پرانے ان سیاسی اتحاد کو خیرباد کہہ دیں گے۔دونوں جماعتوں کے رہنما اس حوالے سے مختلف آرا رکھتے ہیں۔ دو کشتیوں میں پاؤں نہیں رکھے جا سکتے۔جماعتِ اسلامی کے مطابق دونوں جماعتوں کے موجودہ اتحاد چھوڑنے، اس کے وقت اور طریق کار کے حوالے سے تاحال فیصلہ نہیں ہوا۔جماعت الدعوہ کے مطابق متحدہ مجلسِ عمل کے بحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں کے اوائل میں ان کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دینے کا عندیہ دیا گیا تھا۔ طے یہ پایا تھا کہ اتحاد کا باضابطہ اعلان ہونے تک انتظار کیا جائے گا۔یاد رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تاحال باضابطہ طور پر ملی مسلم لیگ کا سیاسی جماعت کے طور پر اندارج نہیں کیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے گذشتہ دنوں ایک ہنگامی نیوز کانفرنس میں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا تاہم اس کے کچھ دیر بعد ہی دوبارہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے اپنا فیصلہ واپس لینے کا اعلان کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے یہ فیصلہ اپنی والدہ کے حکم پر لیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما اور ایم کیو ایم سے الگ ہو کر الگ سیاسی جماعت بنانے والے مصطفی کمال نے سیاسی اتحاد کا اعلان کیا تھا۔جس کے بعد ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے اعلان کیا تھا کہ جن سیٹوں پر جماعت نے سنہ 2013 کے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ان پرسنہ 2018 کے انتخابات میں پتنگ کے نشان کے ساتھ وہ خود انتخاب لڑیں گے جبکہ دیگر نشستوں پر پی ایس پی کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کی جائے گی۔تاہم فاروق ستار نے اپنے گھر پر بلائی جانے والی ایک ہنگامی نیوز کانفرنس میں کہہ دیا کہ وہ سیاست سے دستبردار ہو رہے لیکن اگلے ہی لمحے سیاست میں واپسی بھی ہو جاتی ہے۔کراچی کی سیاست میں چوبیس گھنٹے میں واقع ہونے والی برق رفتار تبدیلیاں دیکھ کر ایسا لگا کہ اس شہر کی کچی پکی سیاسی ڈش کھلانے کی جلدی میں دیگ ہی الٹ گئی ہے۔متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے اس سیاسی ملغوبے کی تیاری میں ناکامی کا ملبہ اپنے سر تھوپنے کی کوشش بھی جس مہارت اور سرعت سے ناکام بنائی وہ بھی دیدنی تھی۔ادھر سیاسی اتحاد کی ہانڈی ابھی چولھے پر پورے طریقے سے چڑھی بھی نہیں تھی کہ دبئی میں تشریف فرما سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے اس کا خیرمقدم بھی کر دیا۔دونوں جماعتوں میں یہ سوچ ہے کہ اگر دونوں الگ الگ رہتے ہیں تو آنے والے انتخابات میں دونوں جماعتوں کے لیے صورتحال مایوس کن ہو جائے گی کیونکہ بنیادی حقائق یہ ہیں کہ باقی سیاسی عناصر بھی میدان میں موجود ہیں جس بات کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ پچھلے سال سے لے کر اب تک متحدہ کے کئی کارکنان نے پیپلز پارٹی میں شمولیت لی اور اب پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کی بات کی جارہی ہے جس سے ووٹ تقسیم ہونے کا خدشہ ہے تو انھوں نے سوچا کہ ضرورت یہی ہے کے ہم ایک ساتھ ہوجائیں۔دونوں جماعتوں کا ووٹر ایک ہے لیکن ’چاہے ان کا سیاسی اتحاد سابق صدر پرویز مشرف کے ساتھ بنے یا آپس میں، لیکن الطاف حسین کی اپنے ووٹرز کے ساتھ جو ایک جذباتی وابستگی تھی وہ اپیل باقیوں میں نہیں ہے۔ حالانکہ بہت حد تک ایم کیو ایم مائنس الطاف ہو بھی جائے گی لیکن الطاف حسین والا رحجان اگر تو ختم ہوگیا ہے تو وہ دوبارہ نہیں بن پائے گا۔‘فاروق ستار کی سیاست سے دستبرادی اور پھر دو گھنٹوں میں واپسی کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ انجینئر دوبارہ اتحاد کی کوشش کرتے ہیں یا یہ اب ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ قصہ مختصریہ کہ ملک بھر میں جتنے بھی سیاسی اتھاد بنیں گے پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی پی اپنے روایتی حریف کے طور پر دو بڑے پلیئر ہونگے جبکہ تیسرا پلیئرپی ٹی آئی ہوگی۔موجودہ حکومت ہر طرف کے پریشر کے باوجود سی پیک اور ملک گیر ترقیاتی میگا منصوبوں کے ساتھ win win پارٹی نظر آتی ہے۔

مزیدخبریں