احمد کمال نظامی
اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ انسانی معاشرہ میں جرائم بھی ہوتے ہیں۔ دنیا کا کوئی معاشرہ ہو‘وہ چاہے ترقی یافتہ ممالک ہوںیاترقی پذیر ممالک یا پسماندہ ممالک‘ سب میں مختلف نوعیت کے جرائم سر زد ہوتے ہیں، جن میں چوری ڈکیتی راہزنی اور اغواءبرائے تاوان کی وارداتیں بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سرکاری اداروں میں جو کرپشن ہو تی ہے چاہے وہ سرکاری ملازمین کریں یا جمہوری معاشرہ میں عوام کے منتخب نمائندے ‘ وہ بھی جرائم کی تعریف میں آتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں سیاست دانوں کی وارداتوں کو واردات قرار ہی نہیں دیا جاتا بلکہ ان کا حق نمائندگی اور خدمت عوام کا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے۔ سیاست میں آنے والے ننگ سے کروڑ پتی کیوں ہو جاتے ہیں اس پر کبھی کسی نے غور نہیں کیا۔ترقی یافتہ ممالک میں پولیس کے محکمہ میں ایک شبہ قائم ہوتا ہے جن کے پاس ہونے والے جرائم کی رپورٹس اور جرم کس بنیاد پر ہوا ‘ اس کی تفصیل ہو تی ہے۔ جو لوگ جرائم میںملوث پائے گئے ان کے بارے جو تفتیشی افسر تفتیش کرتا ہے اس کے بعض اہم نکات بھی سامنے ہو تے ہیں۔ غرض کے طور پر جرائم کی تفصیل ہو تی ہے جو مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کو مختلف کیٹگری میں تقسیم کرتے ہوئے ماہرین، جن میں نفسیات کے ماہرین بھی شامل ہوتے ہیں وہ اس امر پر غور کرتے ہیں کہ مشترکہ نوعیت کے جرائم میں معاشرہ کے کس طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہے اور ان کا خاندانی پس منظر کیا ہے اور انہوں نے کس ماحول میں پرورش پائی ہے۔ انہیں ترقی یافتہ ممالک کی زبان میں تھنک ٹینک قرار دیا جاتا ہے جو اپنی سفارشات حکومت کو ارسال کرتے ہیں اور حکومت ان کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی پالیسی تشکیل دیتی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی جو تعزیرات کے قوانین موجود یعنی رائج ہوتے ہیں ان میں اگر ترمیم کی ضرورت محسوس ہو تو ترمیم بھی کر دی جاتی ہے بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایسا کوئی ارادہ وجود نہیں رکھتا جو حکمرانوں کو اس امر سے آگاہ کر ے کہ معاشرہ میں بڑھتے ہوئے جرائم کے عوامل اور اسباب کیا ہیں ؟ اور ان عوامل اور اسباب کے سیاسی پس منظر کی نوعیت کیا ہے۔ اگر گزشتہ دس برسوں سے پنجاب میں بڑھتے ہوئے سنگین نوعیت کے جرائم کی بات کریں تومعمولی چوری کے واقعات کو نظر انداز کرتے ہوئے سنگین وارداتوں کی بات کریں گے جن میں ڈکیتی ‘راہزنی اور چوری کی وارداتیں سرفہرست ہیں۔ ماضی میں جگا ڈاکو نظام لوہار اور دلا بھٹی جیسے کردار نظر آتے تھے جن پر فلمیں بھی بنائی گئیں اور ہمارے ترقی پسند ‘دانش وروں نے ان کرداروں کو حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمتی آواز قرار دیتے ہوئے تحریک آزادی کے ہیرو کے طور پر پیش کیا۔ لیکن ڈاکو ڈاکو ہی ہو تا ہے چاہے وہ کسی سرمایہ دار اور دولت مند کی دولت کا صفایا کرے یا قومی خزانہ اور قومی وسائل پر ڈاکہ مار کر اپنی تجوری کو بھرے ‘ اس میں اور جگا ڈاکو میں کوئی فرق نہیں ہے اگر فرق ہے تو جگا ڈاکو کو پولیس ہتھکڑی پہناتی ہے اور دوسرے جگا کو سیلوٹ مارتی ہے ‘ ہمیں قطعی اس حقیقت کا علم نہیں ہو تا اور عوام اس سے بے خبر رہتے ہیں کہ گزشتہ سال کے مقابلہ میں رواں سال میں سنگین جرائم میں کتنے فیصد اضافہ ہوا اور اس کے عوامل اور اسباب کیا تھے ہاں جب زیادہ عوامی شور بلند ہو تا ہے تو ہمارے حکمران عوام کی طفل تسلی کےلئے پولیس فورس میں ایک اور فورس کا اضافہ کر دیتے ہیں اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو پانے میں یہ فورس کلیدی کردا ر ادا کر ے گی اور کوئی اس سوال کا جواب نہیں دیتا کہ سابق پولیس فورس آخر کن وجوہات کی بنا پر جرائم پر کنٹرول پانے اور جرائم پیشہ افراد کو قانون کے دائرے میں لانے میں ناکام رہی ہے ۔عوام کو گمراہ کرتے ہوئے بڑی مصومیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہہ دیاجاتا ہے کہ جس طرح دنیا بھر میں مہنگائی اور گرانی کی ایک لہر آئی ہوئی ہے ایسے ہی جرائم کی لہر نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے گویا ہم اپنی ناکامی کا اعتراف نہیں کرتے اور اصل بات اور حقیقت کا اعتراف نہیں کرتے کہ ماضی کے مقابلہ میں پولیس اپنی رٹ کھو چکی ہے۔ عوام پولیس کو واقعی اپنی جان و مال کا محافظ قرار دیتے تھے اب پولیس پر اعتماد نہیں کرتے چاہے پولیس ایک فورس کی بجائے چار فورس میں تقسیم ہو ‘ مثلاً پاکستان اور بھارت کے درمیان 1965ءمیں 17روزہ جنگ ہوئی جبکہ جرائم پیشہ افراد کو اس سے کوئی غڑض نہیں ہو تی کہ ملکی ماحول کیسا ہے ان کی اپنی نفسیات اور جدت ہو تی ہے اور انہوں نے جرم اپنی نوکری اور روزی قرار دیتے ہوئے کرنا ہو تا ہے لیکن تاریخ کا یہ بھی ایک ورق ہے کہ ان 17روزہ جنگ میں پورے پنجاب میں ڈکیتی‘ راہزنی اور چوری کی ایک بھی ایف آئی آر کسی تھانہ میں درج نہیں ہو ئی ‘اس کے مقابلہ میں اب کیا ماحول ہے اور گزشتہ دس برسوں کے ریکارڈ پر ایک نظر ڈالیں تو اعداد و شمار اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ ہر سال سنگین جرائم میں اضافہ ہوا ہے اور ایسی دل خراش خبریں بھی منظر عام پر آئی ہیں کہ ڈکیتی ‘راہزنی اور چوری کی وارداتوں میں خود پولیس کے ملازمین بھی ملوث پائے گئے اور ایک ایسی تہلکہ خیز رپورٹ بھی سامنے آئی جس میں انکشاف کیا گیا کہ بعض پولیس افسران جن میں ایس ایچ اوز بھی شامل ہیں ‘ انہوں نے ڈاکوﺅں کے اپنے گروہ بھی بنائے ہوئے ہیں اور پولیس ہی وارداتیں کرتی ہے ایک اور بات کہ حکمران جرائم پر قابو پانے میں قطعی ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اپنے شہر فیصل آباد کے بارے میں بات کروں تو ایک ایک دن میں ڈکیتی ‘راہزنی اور چوری کی دو دو درجن وارداتیں ہو تی ہیں اور جرائم پیشہ افراد کی گولیوں کا نشانہ بن کر درجنوں افراد اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اور پولیس اکثر کسی ایک قاتل کو گرفتار کرنے میں بھی ناکام رہتی ہے اس کے باوجود اس سے بڑھا المیہ اور کیا ہو گا کہ صوبائی وزیر قانون جن کا تعلق فیصل آباد سے ہے وہ ہر ہفتے دو روز فیصل آباد میں گزارتے ہیں اور جرائم و لا قانونیت پر بات نہیں کرتے؟ڈکیتی ‘راہزنی اور چوری ‘قتل غارت اور اغواءبرائے تاوان کے بڑھتے ہوئے واقعات پر میٹنگ منعقدہ کرنے اور پوری فورس کو ہدایات جاری کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی ‘ کیا عوام یہ جاننے کی زحمت گوارہ کر سکتے ہیں کہ قانون کے محکمے کی بگڑی ہو ئی صورتحال درست ہو گی ‘ رانا ثناءاﷲ خاں کو یہ یاد ہو گا کہ جب وہ مشرف دور میں بیان بازی کیا کرتے تھے تو اس دوران وہ اکثر کہتے تھے کہ فیصل آباد میں ڈاکو راج ہے ‘ مگر آج فیصل آباد کے شہری یہی سوال ان سے کرنے میں حق بجانب ہیں ‘ کہ فیصل آباد میں آج جو ڈاکو راج ہے اس پر وہ کیوںچپ ہیں؟ بہر حال شہری صوبائی وزیر قانون سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ڈاکو راج اسی طرح جاری رہے گا ؟ 10برسوں میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ بھی کیا اور پولیس کے مطالبات پر انہیں جدید سے جدید وسائل بھی فراہم کئے مگریہ کس قدر لمحہ فکریہ ہے کہ پولیس فورس کی تنخواہ میں اضافہ اور وسائل فراہم کرنے کے باوجود جرائم کا گراف بلند ہو تارہا۔عوام میںعدم تحفظ کا احساس بڑھتا چلاجارہا ہے۔
پولیس والوں نے جرائم کی شرح کم دکھانے کےلئے ایک پالیسی کے طورپر ایف آئی آر نہ درج کرنے کی پالیسی پر پوری سختی سے عمل کرنا شروع کیا ہے اور حکومت نے پولیس کے خلاف عوامی شکایات کا ازالہ کرنے کےلئے جو شکایات سیل بنایا ہے ایک خبر کے حوالے سے 30ہزار شکایات تو ایسی موصول ہوئی ہیں جن میں یہ شکایت کی گئی ہے کہ پولیس ایک ایف آئی آر ثبوت ہونے کے باوجود درج نہیں کر رہی اور رشوت طلب کرتی ہے جب رشوت اور سفارش کے بغیر کوئی ایف آئی آر درج ہی نہیں ہوئی تو جرائم میں اضافہ نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا؟ ایسی رپورٹس بھی منظر عام پر آ تی ہیں کہ جرائم پیشہ افراد اور گروہوں نے جہاں واردات کرنی ہو تی ہے وہاں متعلقہ تھانے کی پولیس سے پہلے سودا ہوتا ہے اور ”مک مکا “کے بعد بڑی کامیابی سے واردات سر انجام دی جاتی ہے۔ جب واردات کے بعد جرائم پیشہ اپنی اپنی پناہ گاہوں میں روپوش ہو جاتے ہیں تب پولیس موقعہ واردات پر ” حاضری“ لگوانے آتی ہے۔ فیصل آباد میں گزشتہ دو روز میں سنگین وارداتوں کی کوئی تقریباً7درجن وارداتیں ہوئی ہیں جس میں ایک شہری کو قتل کرنے کے علاوہ ڈاکو ‘چور ‘ راہزن 2درجن کے لگ بھگ موٹرسائیکلیں ‘ 6کے قریب کاریں ‘ موبائل فونز ‘ طلائی زیورات ‘ پارچہ جات ‘ لاکھوں کی نقدی اور قیمتی سامان لوٹ اور چوری کر کے لے اڑے‘ پولیس ان میں سے ایک واردات کا بھی تاحال سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ‘ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ناکامی تو پولیس کے ریکارڈ کا ایک حصہ ہے اب بڑے دعوی کے جدید سازو سامان کے ساتھ ڈولفن فورس تیار کی گئی ہے اور انہیں دیگر فورس کے مقابلہ میں تنخواہ بھی دو گنا دی جا رہی ہے اور جدید ترین اور سواری بھی فراہم کی گئی ہے اس کے باوجود جرائم میں ایک فیصد بھی کمی نہیں ہو ئی ‘ صورتحال یہ ہے کہ ڈولفن فورس جو ہر وقت گردش میں رہتی ہے ‘ اس نے اپنی گشت کا مخصوص روٹ بنا لیا ہوا ہے جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ کینال وے ایکسپریس جہاں سنگین واردات ایک معمول کا درجہ اختیار کر چکی ہیں ڈولفن فورس نے ابھی تک کینال ایکسپریس وے کادورہ بھی نہیں دیکھا ‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈولفن فورس ایکسپریس وے پر بھی گشت کرے تاکہ لوگوں کو احساس ہو کر اس فورس کے قیام سے جرائم میں کمی آئی ہے جس کی امید تو نہیں ‘ لہذا دنیا امید پر قائم ہے ‘ ایسے ہی ڈولفن فورس شاہراﺅں ‘ چوراہوں میںعام شہریوں کو مرغا بنا کر اور کھڑے کرکے تذلیل کے ساتھ تلاشی لینے کا سلسلہ بند ہو نا چاہیے ‘ تاکہ شہریوں میں جو نفرت کا بیج بویا جا رہا ہے وہ نفرت ختم ہو سکے ‘ ڈولفن فورسز اپنے گشت کے معمول بنائے اور اپنی دہشت اور خوف عام شہریوں پر طاری کرنے سے باز رہے اور خود کو عوام کے جان و مال کے محافظ بنانے کا عندیہ دے ‘ نا کہ ”ہلاکو خاں “ فورس کا روپ دھارے ‘ تاکہ گلی بازاروں اور چوراہوں میں ٹریفک وارڈن کی طرح ” جوڈو کراٹے“ کے مناظر دیکھنے کو نہ مل سکیں ‘ ڈولفن فورسز کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی وردی موٹرسائیکل اور تنخواہوں کی رقم عوام کے خون پسینے کی کمائی سے دئیے گئے ٹیکس سے دی گئی ہے ‘ یہ کوئی آسمانی مخلوق نہیں یہ بھی عام انسانوں میں سے منتخب کئے گئے سرکاری اہلکار ہیں ‘ اس لئے یہ گشت کے دوران جو پٹرول بھی جلا رہے ہیں وہ بھی عوام کے ٹیکسوں سے دئیے گئے پیسوں سے دیا جا رہا ہے ‘ شہریوں کا یہ سوال ہے کہ ڈولفن فورسز اپنے وجود کے احساس کےلئے چوروں اور ڈاکوﺅں کےلئے گھیرا تنگ کرے بصورت دیگر ڈولفن فورس بھی پولیس فورس کی طرح ایک اضافی فورس ہو گی ۔