فیصل آباد میں ٹریفک کی جو صورت حال ہے اس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں کیونکہ پورے شہر میں ٹریفک حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ٹریفک پولیس کی طرف سے بڑے فخریہ انداز میں ایک پریس ریلیز جاری کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فیصل آباد ٹریفک پولیس نے کریک ڈا¶ن کے دوران ایک ہزار سے زیادہ کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف کارروائی کی اور اس کارروائی سے ٹریفک پولیس کو جرمانہ کی شکل میں تین لاکھ روپے سے زیادہ کی رقم موصول ہوئی۔ جن کم عمر ڈرائیوروں سے جرمانہ کی رقم وصول کی گئی ان کے والدین کو بھی طلب کیا گیا۔ موٹرسائیکل اور رکشہ وغیرہ اس شرط پر ان کے سپرد کئے گئے کہ انہوں نے تحریری طور پر اس امر کا یقین دلایا کہ آئندہ وہ اپنے کم عمر بچوں کو ڈرائیونگ کی اجازت نہیں دیں گے۔ ٹریفک پولیس کا کم عمر رکشہ ڈرائیوروں کے خلاف اور موٹرسائیکل سواروں کے خلاف کریک ڈا¶ن اپنی جگہ ایک اچھا اقدام ہے کیونکہ ٹریفک قوانین کے تحت کم عمر تو اپنی جگہ رہے جن افراد کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہ ہو ان کو بھی قانون کے تحت ڈرائیونگ کی اجازت نہیں ہے لیکن اس قانون پر عملدرآمد کب ہوتا ہے کیونکہ اگر ایک شاہراہ پر ایک ہزار موٹرسائیکلیں گزرتی ہیں تو ایک اندازے کے مطابق تین سو سے زیادہ افراد کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہوتا اور پھر قانون کے تحت ایک موٹرسائیکل پر دو سے زیادہ افراد سوار نہیں ہو سکتے جبکہ یہ منظرعام شاہراہوں پر نظر آتا ہے کہ موٹرسائیکل بنی ہوتی ہے اور چار چار افراد اس پر سوار ہوتے ہیں اور ٹریفک وارڈنز کی نگاہوں کے سامنے سے گزرتے ہیں جبکہ اوورلوڈنگ پر سخت پابندی کے باوجود ویگنز اور بس مالکان نہ صرف اوورلوڈنگ کرتے ہیں خصوصی طور پر جو ٹرانسپورٹ دیہی علاقوں کی طرف چلتی ہے وہ اوورلوڈنگ کرنا اپنا حق قرار دیتے ہیںاور صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ اڈہ مالکان کو وہ منتھلی کس بات کی دیتے ہیں۔ فیصل آباد میں جس قدر ٹرانسپورٹ کے اڈے ہیں ان اڈوںپہ چلنے والی تمام ویگنز اور بسیں اڈہ مالکان کی نہیں ہوتیں بلکہ ان کے مالکان اور ہوتے ہیں اور اڈہ مالکان تو جگا ٹیکس کے طور پر اڈہ فیس بھی وصول کرتے ہیں ۔ اس میں اضافی رقم ٹریفک پولیس کی منتھلی بھی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو افسر بھی ٹریفک پولیس کا چیف بنتا ہے اس کی امریکن لاٹری نکل آتی ہے اور وہ سونے کی کان کا مالک بن جاتا ہے۔پولیس کے سپیشل ملازمین منتھلی کی وصولی کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور اڈہ مالکان ان کو دفتر ہی فراہم نہیں کرتے بلکہ اس کی جملہ ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری بھی اڈہ مالکان پر عائد ہوتی ہے۔ فیصل آباد میں مختلف اہم چوکوں اور شاہراہوں پر چند ڈنڈا بردار افراد کھڑے ہوتے ہیں جو اس چوک کو کراس کرنے والے ہر رکشہ ڈرائیور سے دس روپے وصول کرتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ تو ٹھیکہ ہوتا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوتی اور نہ ٹھیکہ ہوتا ہے بلکہ وہ ملی بھگت ہوتی ہے جو دس دس روپے کی صورت میں بھتہ وصول کرتے ہیں جو یومیہ ہزاروں میں ہوتا ہے جو حصہ بقدر جثہ کی بنیاد پر تقسیم ہوتا ہے۔ کسی ٹریفک پولیس، ڈپٹی کمشنر، سی پی او اور آر پی او کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ دن کی روشنی میں ٹریفک پولیس وارڈن کی موجودگی میں جس دیدہ دلیری سے یہ بھتہ خوری ہوتی ہے اس کا جواز کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی شہر میں ایسی خودساختہ پارکنگ بھی موجود ہیں جہاں پارکنگ کے نام پر جو فیس وصول کی جاتی ہے وہ کس کی جیب میں جاتی ہے۔ گویا پورے کا پورا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ٹریفک وارڈن کی بنیادی ذمہ داری تو ٹریفک کو کنٹرول کرنا اور شہر میں چلتی ہوئی بے ہنگم ٹریفک کو ایک ضابطہ کار کے مطابق چلانا ہے لیکن فیصل آباد کے کسی چوک پر نظر ڈالیں اور کسی بھی شاہراہ پر ایک نظر ڈالیں کہیں بھی ٹریفک قوانین کے تحت ٹریفک چلتی نظر نہیں آتی۔ اور اگر ذرا سا اوورلوڈ ہو جائے تو ٹریفک جام ہو جاتی ہے اور ٹریفک وارڈن ٹریفک کو بحال کرنے کی بجائے موبائل فون پر خوش گپیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک اور اہم بات کہ ٹریفک وارڈنز کا نظام تو ٹریفک کو سبک رفتاری دینے کی غرض سے وجود میں لایا گیا تھا لیکن ٹریفک چیف نے ٹریفک وارڈن کو ٹریفک پولیس کی آمدن بڑھانے کا ذریعہ قرار دیا ہوا ہے اور ہر ٹریفک وارڈن کو چالان کرنے کا ایک ٹارگٹ دیا جاتا ہے اور جو اس ٹارگٹ کو پورا نہیں کرتے ان سے جواب طلبی کی جاتی ہے لہٰذا ٹریفک وارڈن کی تمام تر توجہ تو اپنے ٹارگٹ کو پورا کرنے پر مرکوز ہوتی ہے اس نے ٹریفک کو پھرکنٹرول کرنے میں اپنی ذمہ داری کیوںپوری کرنی ہے۔ بہتر تو یہی ہے کہ ”چالان ٹارگٹ پالیسی “کو ترک کرتے ہوئے کارکردگی اور ٹریفک نظام کو بہتر کرنے کی طرف توجہ دی جائے۔