25جولائی کو الیکشن 2018ء کا انقعاد ہوا ، وزیراعظم عمران خان نے 18 اگست کو وزیراعظم کے عہدے کا حلف اُٹھایا ۔ پاکستان تحریک انصاف کو ماسوائے خیبرپختوانخوا کے کہیں اکثریت حاصل نہیں ہو سکی تھی لیکن چھوٹی جماعتوں اور آزاد ارکان اسمبلی کی مدد سے وزیر اعظم عمران خان کی جماعت نے مرکز اور پنجاب کی حکومتیں قائم کیں جبکہ سینٹ میں پی ٹی آئی کواکثریت حاصل نہیں ہے۔ سو جہاں مرکز اور پنجاب میں پی ٹی آئی کو دوسری چھوٹی جماعتوں اور آزاد ارکان اسمبلی پر انحصارکے باعث مشکلات کا سامنا رہا وہاں اپوزیشن جماعتوںکی جانب سے بھی انہیں ٹف ٹائم مل رہا ہے تاہم ماضی میں حزب اختلاف کا سیاست میں کردارزیادہ منفی اور جارحانہ رہا اور اُن کے ارکان نہ صرف پارلیمنٹ کے اندر اودھم مچاتے تھے بلکہ اسمبلیوں سے باہر بھی ہر وقت ایجی ٹیشن کے موڈ میں دکھائی دیتے ۔ موجودہ حکمران خوش قسمت ہیں کہ انہیں ایسی اپوزیشن کا سامنا نہیں ہے۔ الٹا حکمران جماعت کے سربراہ اور وزیراعظم سیاست میں جارحانہ انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جبکہ اُن کے اکثرمرکزی اور صوبائی وزراء بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کی تفسیر بنے ہوئے ہیں۔ جناب عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد اعلان کیا تھا کہ اُن کی حکومت کے پہلے 100 دن اُن کی حکومت کی سمت واضح کر دیں گے۔سو دن مکمل ہونے میں چند روز باقی ہیں جبکہ ان کی حکومت کے تین ماہ مکمل ہوچکے ہیں۔ عمران حکومت کے 100 دن مکمل ہونے کے بعد اس حکومت کا ہنی مون پیریڈ ختم ہوجائے گا۔ خان صاحب نے اپنی حکومت کی 100 روز کارکردگی کی تفصیل قوم کے سامنے پیش کرنے کے لئے وفاقی اور صوبائی ذمہ داران کے ذمے ان کو رپورٹیں پیش کرنے کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے اور خود 100 دن مکمل ہونے کے بعد قوم کے سامنے اپنی حکومت کو درپیش مشکلات اور 100 روز ہ کارکردگی پیش کریں گے۔
ہم ان کی حکومت کے پہلے تین ماہ کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ عمران حکومت مستقبل میں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف مزید جارحانہ انداز اختیار کرے گی جس سے ملک کے سیاسی ماحول میں تلخی مزید بڑھنے کے واضح امکانات موجود ہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی کے صدارتی الیکشن اور سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ سلیم مانڈوی والا کے انتخاب کے موقع پر جس طرح پی ٹی آئی اور خان صاحب نے یوٹرن لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کو گلے لگایا تھا اورپیپلز پارٹی کو حمایت دی اور لی تھی۔ وہ وزیراعظم عمران خان کے بقول عظیم لیڈر کی حیثیت سے یوٹرن تھا کیونکہ سامنے دیوار دیکھ کر وہ اور کیا کرتے۔ اب جبکہ سینٹ میں پی ٹی آئی کو اکثریت حاصل نہیں اور حکومت تین ماہ کے عرصے میں ماسوائے ترمیمی فنانس بل کے کوئی اور بل پاس نہیں کروا سکی اور اسے سینٹ میں مشکلات دور کرنی ہیں تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں سے کسی ایک جماعت کو انہیںگلے لگانا پڑے گا۔ ہماری رائے ہے کہ موجودہ پی ٹی آئی ماضی کی پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ملغو بے پر مشتمل حکمران جماعت ہے،انکی اکثریت اُن لوگوںپر مشتمل ہے جو نوازشریف اور مسلم لیگ ن سے دشمنی کی حد تک سیاسی اختلاف رکھتے ہیں سو پی ٹی آئی یقیناً پیپلز پارٹی سے گلے ملنے کا فیصلہ کرے گی۔ یوٹرن لینے کے حق کے وزیراعظم عمران خان کی دلیل کے بعد نہ صرف ایسا کرنا جائز ہوگا بلکہ آئی ایم ایف سیمت مختلف ممالک سے قرضہ لینا بھی بیشک یو ٹرن ہے لیکن ٹھیک فیصلہ ہے۔ جہاں تک وزیراعظم صاحب کے سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کرنے کا تعلق ہے اس کالگ بھگ وہی حال ہے جو کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کا تھا سو اس طرح پارلیمنٹ کو اہمیت دینے کی سمت کا تعین بھی ہو گیا ہے۔
فرض کریں کہ وزیرعظم عمران خان یو ٹرن نہیں لیتے اور بیک وقت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی دس سالہ حکومتوں کا پوسٹ مارٹم جاری رکھتے ہیں اور ان کے لیڈروں کا بلا امتیاز احتساب جاری رہتا ہے تو پاکستان کے عوام کی اکثریت اس پر خوشی کے شادیانے بجائے گی کیونکہ ہماری یہ روایت ہے کہ اپنے سوا کسی دوسرے پر جو بھی آفت آئے ہم اسے جائز سمجھتے ہیں، کوئی اس بات پر غور کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتا کہ کسی سیاسی لیڈر پر جو الزام لگایا جا رہا ہے ممکن ہے وہ درست نہ ہو، ہم اس اصول کے قائل نہیں کہ ملزم کو اس وقت تک بے گناہ سمجھو جب تک اس پر جرم ثابت نہ ہو جائے، ہم تو الزام ہی کو جرم کا ثبوت سمجھتے ہیں، ہم اس اصول کے قائل نہیں کہ انصاف کے عدالتی طریقہ کار کی وجہ سے اگر 9 گناہ گار سزا سے بچ جائیں تو وہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ ایک بیگناہ کو سزا ہو جائے۔
اور آخری بات موجودہ حکومت کے کارپردازوں کی جارحانہ پن کے حوالے سے ہے یوں تو تین ماہ کے عرصہ میں کئی واقعات سامنے آچکے ہیں لیکن میں ایک ایسے واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو میڈیا کی زینت نہیں بنا۔ ہوا یوں کہ وزیراعظم عمران خان کے بقول جس طرح سردار عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے انکی اپنی چوائس ہیں۔ اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل کے بقول وہ بھی وزیراعظم عمران خان کی چوائس ہیں۔ خان صاحب نے انہیں امریکہ میں پروفیسری ترک کر کے یہاں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا ترجمان بننے کا حکم سنایا۔ واقعہ یہ ہے کہ ترجمان وزیراعلیٰ کی پریس کانفرنس ڈی جی پی آر پنجاب آفس میں رکھی گئی تھی۔ مس انڈرسٹینڈنگ کی وجہ سے ترجمان صاحب مقررہ وقت پر نہ پہنچ سکے۔ ان کو اندیشہ ہوا کہ ڈی جی پی آر پنجاب نے قصداً ایسی صورتحال پیدا کی جس کے باعث بد مزگی پیدا ہوئی اور بعض صحافی وہاں سے چلے گئے۔سو انہوں نے راقم الحروف سمیت بعض دیگر صحافیوں کی موجودگی میں نہ صرف ڈی جی پی آر اور انکے دیگر افسران کی ایسی تیسی کی بلکہ اپنا کوٹ اتارپھینکا اور چھوٹے قد کے ڈی جی پی آر کو مارنے کو جھپٹے، ڈی جی پی آر صاحب وہاں سے احتجاجاً واک آؤٹ کر گئے، دیگر افسران بھی وہاں سے چلے گئے۔ صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان اطلاع ملتے ہی خود ڈی جی پی آر آفس آپہنچے اور ڈی جی پی آر کو استعفیٰ دینے سے روکا کہ میڈیا میںبہت بڑا ایشو بن جائے گا۔ جبکہ دیگر افسران کو پریس کانفرنس ہال میں بھجوا دیا جب راقم الحروف پریس کانفرنس کے اختتام پر باہر آیا تو وزیر اطلاعات کی گاڑی وہاں کھڑی دیکھ کر واپس اندر جا کر تصدیق کی ۔موصوف وزیر اطلاعات اندر ڈی جی پی آر کے کمرے میں موجودتھے۔