وزیر اعظم کی اپنے مخالف سیاستدانوں پر جارحانہ تنقید، عدلیہ سے عوام کا اعتماد بحال کرنے کا تقاضہ اور ترجمان پاک فوج کی وضاحت
وزیر اعظم عمران خاں نے کہا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں مافیا کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کیا ہوا ہے۔ جنرل جیلانی کے گھر کا سریا لگاتے لگاتے یہ لوگ وزیر بن گئے، شہباز شریف منڈیلا کی شکل بنا کر کھڑے ہو گئے۔ یہ چاہے سارے اکٹھے ہو جائیں ، میں کسی ایک کرپٹ کو بھی معاف نہیں کروں گا۔ گزشتہ روز ہزارہ میں موٹروے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اپوزیشن کے سیاستدانوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ اور مسٹر جسٹس گلزار احمد کا نام لے کر کہا کہ وہ ملک کو انصاف دے کر آزاد کریں۔ انہوں نے کہا ماضی میں ایک چیف جسٹس کو فارغ کرنے کے لئے دوسرے جج کو نوٹوں کے بریف کیس دے کر بھیجا گیا ، سیاسی مخالفین کو سزائیں دلوانے کے لئے فون پر فیصلے لکھوائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کو کچھ ہوا تو میں ذمہ دار ہوں گا مگر جو آٹھ سو سے زائد قیدی پچھلے دور میں جیلوں میں مر گئے، ان کا ذمہ دار کون ہے۔ ان کے بقول نظام عدل کا تاثر یہی ہے کہ یہاں طاقتور کے لئے ایک قانون ہے اور کمزور کے لئے دوسرا، عدلیہ عوام میں اپنا اعتماد بحال کرے۔
مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اسلام آباد میں ایک سرکس ہوئی ۔ دھرنے سے ہماری کابینہ کے کچھ لوگ گھبرا گئے تھے کیونکہ وہ کمزور دل رکھتے ہیں تاہم میں نے انہیں کہا کہ آپ تسلی رکھیں، کچھ نہیں ہو گا۔ دھرنے کا سب سے بڑا ایکسپرٹ تو میں یہاں کھڑا ہوں۔ میں نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ یہ لوگ ایک مہینہ کنٹینر میں گزار لیں، میں ان کی ساری باتیں مان جائوں گا۔ ان کے بقول جو جتنا بڑا کرپٹ تھا وہ کنٹینر پر اتنا ہی زیاد ہ شور مچا رہا تھا۔ فضل الرحمان اسلام کے نام پر سیاست کر رہے ہیں۔ ڈیزل کے پرمٹ اور کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ پر بکنے والا حکومت گرانے کی باتیں کر رہا ہے۔ مجھے تو مولانا فضل الرحمان کی آخرت کی فکر ہے۔ ان کے بقول ان کی کابینہ کے زیادہ تر لوگ نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے مخالف تھے مگر میرے دل میں رحم آ گیا اور میں نے کہا کہ اسے جانے دو، ہم نے شریف خاندان سے صرف کاغذ کا ایک ٹکڑا مانگا تھا۔ اس خاندان نے اتنا پیسہ بنایا ہوا ہے کہ سات ارب روپے تو وہ ٹپ میں دے سکتے ہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ بلاول خود کو لبرل کہتا ہے مگر وہ لبرل کے بجائے لبرلی کرپٹ ہے، دریں اثناء ڈاکٹر بابر اعوان سے ملاقات کے موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ وہ قانون کی حکمرانی سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ این آر او مانگنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ملک کے تمام ادارے ترقی اور پاکستان کو مضبوط رکھنے کے لئے ایک پیج پر ہیں اداروں کی تعمیرنو اور مضبوطی کے بغیر کام نہیں چلے گا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کی باہمی تال میل سے ہی جمہوریت کی گاڑی سبک خرامی کے ساتھ استحکام کی منزل کی جانب گامزن رہ سکتی ہے اور مستحکم جمہوریت قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کی بھی ضمانت بنتی ہے۔ اس حوالے سے عوام کی نمائندہ منتخب حکومت نے اپنی بہتر گورننس کی بنیاد پر عوام کے روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے مسائل حل کر کے ان کے ودیعت کردہ مینڈیٹ کے تقاضوں سے عہدہ برا ہونا ہونا ہے اور اسی طرح انصاف کی عملداری کے لئے تمام انتظامی معاملات پر عدلیہ کی معاونت کرنا ہوتی ہے جبکہ ادارہ جاتی ہم آہنگی کی فضا استوار کرنے میں بھی حکومت ہی کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ ملک کے تمام ریاستی اداروں کے اختیارات اور ذمہ داریاں آئین میں متعین ہیں۔ اگر ہر ادارہ اپنی آئینی ذمہ داریوں کے فریم ورک میں رہتے ہوئے فرائض سرانجام دے تو اس سے ملک کی ترقی و استحکام ، عوام کی خوشحالی اور سسٹم کی مضبوطی کی ضمانت ملتی ہے۔ ماضی میں بدقسمتی سے ادارہ جاتی ہم آہنگی کی فضا مکدر ہوتی رہی اور سیاستدانوں میں بھی رواداری کے فقدان کے باعث نہ صرف جمہوریت کے پھلنے پھولنے کی گنجائش کم ہوئی بلکہ جمہوریت پر شب خون مارنے کی سوچ رکھنے والوں کو ماورائے آئین اقدام کے تحت جمہوریت کی بساط الٹانے کے مواقع بھی ملتے رہے۔ یہ طرفہ تماشہ ہے کہ جن سیاستدانوں کی باہمی ناچاقیوں کے باعث ملک میں جرنیلی آمریتوں کے راستے نکلے وہی سیاستدان بعدازاں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر بحالی ٔجمہوریت کی جدوجہد کرتے نظر آتے رہے۔ ہماری سیاسی تاریخ ایسے تلخ حقائق سے بھری پڑی ہے اور ان تلخ حقائق کی بنیاد پر ہی اپوزیشن اتحاد اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف سمیت تمام اپوزیشن قائدین میثاق جمہوریت پر متفق ہوئے جس کے تحت انہوں نے باہمی عہد کیا کہ آئندہ اپنے اقتدار کی خاطر مخالف حکومت کو گرانے کے لئے طالع آزمائوں کو اپنا کندھا فراہم نہیں کیا جائے گا۔
اسی طرح عدلیہ کو بھی جرنیلی آمر مشرف کی جانب سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو ان کے منصب سے فارغ کرنے کے اقدام کی بنیاد پر جرنیلی آمروں کے ماورائے آئین اقدامات کو نظریہ ضرورت کے تحت آئینی تحفظ فراہم کرنے والی اپنی ماضی کی تاریخ سے رجوع کرنے کا موقع ملا اور سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف مشرف آمریت کی جانب دائر کئے گئے ریفرنس کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے چیف جسٹس کی بحالی کیساتھ ساتھ نظریہ ضرورت کو بھی سپریم کورٹ کے احاطے میں دفن کرنے کا اعلان کیا۔ بے شک سیاسی قائدین نے بھی اپنے اپنے دور حکومت میں میثاق جمہورت کی اس کی روح کے مطابق پاسداری نہیں کی اور عدلیہ کی جانب سے بھی جوڈیشل ایکٹوازم کو بروئے کار لا کر منتخب حکومتوں کیلئے ’’صبح گیا یاشام گیا‘‘ والی کیفیت بنائی جاتی رہی ہے۔ اس کے باوجود جمہوریت کی گاڑی گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے استحکام کی منزل کی جانب گامزن ہے جس کا کریڈٹ ہماری عسکری قیادتوں کو بھی جاتا ہے جنہوں سیاستدانوں کی جانب سے ماورائے آئین اقدام کے مواقع بنائے جانے کے باوجود منتخب جمہوری حکومتوں کی معاونت کی آئینی ذمہ دار نبھائی اور اپنی توجہ سرحدوں کی حفاظت کے پیشہ ورانہ فرائض کی جانب ہی مرکوز رکھی۔ ہماری موجودہ عسکری قیادتیں بھی منتخب سول حکومتوں کی معاونت کے عزم پر ہی کاربند ہیں اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ متعدد مواقع پر باور کرا چکے ہیں کہ عساکر پاکستان اپنی آئینی ذمہ داریوں کے مطابق منتخب سول حکومت کی پشت پر کھڑی ہیں اور ملک کی حفاظت کے تقاضوں سے ہرگز غافل نہیں۔ عسکری قیادتوں کے اسی عہد کا اعادہ گزشتہ روز ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے اپنے اس بیان کے ذریعے کیا ہے کہ جمہوری حکومت کی حمایت ہماری آ ئینی ذمہ داری ہے۔ حکومت اور فوج میں کوئی اختلاف نہیں اور وزیراعظم اور آرمی چیف ایک پیج پر ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے اپوزیشن دور میں اس وقت کے حکمرانوں کے خلاف دیئے گئے طویل دھرنے کے موقع پر بھی ان کی جانب سے امپائر کی انگلی اٹھنے کے بار بار کے عندیہ کے باوجود اس وقت کی عسکری قیادت نے منتخب جمہوری نظام کو گزند تک نہ پہنچنے دی اور دھرنا لیڈران کے حکومت کے ساتھ معاملات طے کرانے کی کوششیں جاری رکھیں۔آج وزیراعظم عمران خان اور ان کی پارٹی تحریک انصاف اس حوالے سے خوش قسمت ہے کہ انہیں اپنی جیسی جارحانہ اپوزیشن کی سیاست کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور اپوزیشن جماعتوں نے حکومت سازی کے مراحل سے حکومت مخالف اپوزیشن تحریک کے آغاز تک جمہوریت کو کسی قسم کی گزند نہ پہنچنے دینے کی پالیسی اختیار کئے رکھی ہے اور مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور دھرنے کے حوالے سے بھی بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادتیں سسٹم کو نقصان نہ پہنچنے دینے کی پالیسی پر کاربند رہی ہیں۔ بلاشبہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کرپشن فری معاشرے کی تشکیل کے ایجنڈے پر کاربند ہے جس کا وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز بھی اپنی تقریر میں عزم باندھا ہے اور کسی کرپٹ کو نہ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے‘ تاہم وہ اپوزیشن قائدین کے ساتھ جس لب و لہجے میں مخاطب ہوئے اور مولانا فضل الرحمن ‘ میاں شہبازشریف اور بلاول بھٹو زداری سمیت سب پر بھبتیاں کسیں۔ اس سے سیاسی رواداری کے بجائے سیاسی انتشار اور کشیدگی کی فضا گرم ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ انہوں نے ایک جانب تو میاں نوازشریف کی علاج معالجے کیلئے بیرون ملک روانگی کے حوالے سے اپنے دل میں رحم آنے کا تذکرہ کیا اور دوسری جانب انہوں نے میاں شہبازشریف سمیت شریف فیملی کی بھد اڑانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جبکہ مولانا فضل الرحمن کو بھی انہوں نے یہ کہہ کر دھرنا سیاست کیلئے دوبارہ چیلنج کر دیا کہ وہ ایک مہینہ کنٹینر میں بیٹھ کر دکھادیں۔ اگر ایسا ہی معاملہ تھا تو دھرنا ختم کرانے کیلئے حکومتی مذاکراتی ٹیم تشکیل دینے اور چودھری برادران کو اس معاملہ میں کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
وزیراعظم کی تقریر کے حوالے سے سب سے زیادہ پریشان کن صورتحال عدلیہ کے بارے میں ان کے ریمارکس سے پیدا ہو سکتی ہے جن کے تحت فاضل چیف جسٹس اور ان کے جانشین کا نام لیکر کہا گیا ہے کہ وہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال کریں۔ اسی طرح جنرل غلام جیلانی کے حوالے سے وزیراعظم کے ریمارکس ملک کے عسکری ادارے کیلئے بھی پریشان کن ہو سکتے ہیں کیونکہ بطور ادارہ عساکر پاکستان اپنے سابق قائدین کے کسی کردار پر بھی کوئی حرف نہیں آنے دے سکتیں۔ جنرل مشرف کا معاملہ اس کی واضح مثال ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی گزشتہ روز کی تقریر میں بادی النظر میں اس امر کا عندیہ مل رہا ہے کہ وہ ’’چاہے کچھ بھی ہو جائے‘‘ کے فلسفہ کے تحت کسی کرپٹ کو نہ چھوڑنے کے اپنے ایجنڈے پر کاربند ہیں اور وہ اپنے ذہن میں موجود اس تصور کے مطابق ہی عدلیہ سے انصاف کی عملداری کے متقاضی ہیں جس کے برعکس کوئی معاملہ انہیں قابل قبول نظر نہیں آرہا۔ خدا کرے کہ وہ اپنے اس عزم پر کاربند رہیں اور اپنی حکومت سے وابستہ ہونے والی عوام کی توقعات پوری کرکے بھی سرخرو ہوں‘ تاہم ان کے انداز سیاست سے ملک میں ماضی سے بھی بدتر محاذ آرائی کی سیاست کے فروغ پانے کے امکان سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا جبکہ محاذآرائی کی ایسی فضا بادل نخواستہ سسٹم کی بساط لپیٹے جانے پر بھی منتج ہو سکتی ہے۔ سسٹم کو بچائے رکھنے اور مستحکم بنانے کی بنیادی ذمہ داری بہرصورت حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔