آج پھر دریائے چناب کی ہیڈ مرالہ پر آمد میں انتہائی کمی واقع ہوئی ہے۔ مرالہ کے مقام پر دریائے چناب میں پانی کی آمد کا اس حد تک گرنا قابل غور ہی نہیں بلکہ ہمارے اداروں کی ناکامی کی منہ بولتی تصویر بھی ہے۔ دریائے چناب پر متنازعہ بگلیہار ڈیم کی تعمیر میں پاکستانی مشن کی قیادت سابق کمشنر جماعت علی شاہ کر رہے تھے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ورلڈ بینک کے نیوٹرل ایکسپرٹ کے سامنے کیس کو مناسب انداز میں لڑا ہی نہیں گیا۔ نیوٹرل ایکسپرٹ نے انڈس واٹر ٹریٹی 1960 کی مخالفت میں کمنٹس دیتے ہوئے واضح کیا کہ ڈیم کی استعداد بہتر بنانے کیلئے بھارت کی طرف سے دیا گیا بگلیہار ڈیم کا ڈیزائن درست ہے۔ نیوٹرل ایکسپرٹ کے غلط فیصلے کو عالمی عدالت میںچیلنج کرنا انتہائی ضروری تھا لیکن پاکستانی مشن کے پاس یا تو اہلیت کی کمی تھی یا پھر وہ غیرملکی ایجنڈے پر کام کر رہے تھے‘ انھوں نے اس غلط فیصلہ کو بھی پاکستان کی جیت قرار دیا تھا۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اداروں کی کوتاہی اور ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے بھارتی ایجنڈا سرچڑھ کر اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہے اور پاکستان کو بتدریج اس کھائی میں گرایا جا رہا ہے جہاں پاکستان کو بھوکا پیاسا مارنے کا بھارتی منصوبہ کامیاب ہو سکے۔
سندھ طاس معاہدے میں تین مشرقی دریا بھارت کے حوالے کرکے راوی، بیاس اور ستلج کی زرخیز ترین وادیوں کو بنجر بنانے کی طرف پہلا قدم بڑھایا گیا تھا۔ اس وقت بھی ورلڈ بینک کے صدر مسٹر بلیک نے ایوب خان سے معاہدے کے دستخط کرنے کے وقت تنبیہہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آپ کشمیر کی جنگ لڑ سکتے ہو تو اس معاہدے پر دستخط نہ کرو۔ اس معاہدہ میںتین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کے پانیوں پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا تھا۔ آخری موقع پر نہرو کے کہنے پر کشمیر میں پاکستانی پانیوں پر بھارت کو پانی کے بہاؤ پر ہائیڈروپاورپراجیکٹس بنانے کی اجازت دی گئی۔ بھارت کو یہ حق دینا کشمیر کی جنگ ہارنے کی پہلی کڑی تھی چنانچہ تینوں مشرقی دریاؤں پر مکمل منصوبے بنا کر انہیں کنٹرول کرنے کے بعد اسکی للچائی ہوئی نظریں پاکستانی دریاؤں پر مسلسل گڑی ہوئی ہیں۔
انڈس واٹر ٹریٹی میں واضح طور پر لکھا ہے کہ پاکستانی پانیوں پر بنائے گئے پراجیکٹس میں ایک ہفتہ کے دوران بھارت تمام پانی کی آمد کے خروج کا ضامن ہوگا۔ پانی کی ترسیل 30 سے 130 فیصد کے درمیان ہوگی۔ میں پاکستان کے واٹر کمشنر سے سوال کرنے میں یقینا حق بجانب ہوں کہ کیا آپ کو مقبوضہ کشمیر میں بنائے گئے بھارتی ڈیموں کے پانی کی آمد و اخراج کا مکمل علم ہے اور آپ کی معلومات کا ذریعہ کیا ہے؟ کیا آپ صرف بھارت کی طرف سے مہیا کئے گئے اعدادوشمار پر انحصار تو نہیں کر رہے؟ کیا آپ کو بھارت کی طرف سے مہیا ہونے والے اعدادوشمار پر پورا یقین ہے؟ سندھ طاس معاہدہ آپ کو حق ہی نہیں دیتا بلکہ آپ کا فرض ہے کہ آپ پاکستان کے پانیوں کی مکمل حفاظت کریں۔ اس سلسلہ میں آپکی جو بھی ضروریات ہیں‘ حکومت پاکستان کو فرض ہے کہ آپ کو مہیا کرے۔ بھارت کے آبی وفد جب بھی پاکستان آتے ہیں‘ وہ پاکستان میں بہنے والے دریاؤں کا جائزہ لینے کیلئے آپ کو پابند کرتے ہیں تاکہ وہ پاکستانی پانیوں کے بہاؤ سے ہروقت آگاہی رکھ سکیں۔ آپ پاکستانی پانیوں کے امین ہیں۔ آپ کا فرض ہے کہ حکومت کو آگاہ کریں کہ موسمی تغیر اور اسکے اثرات سے پاکستانی پانیوں میں کیا کمی واقع ہوگی اور اس کا مقابلہ کس طرح کیا جا سکے گا؟
دریائے چناب اس کیلئے کسی حلوے کی مانند نظر آتا ہے۔ یہ وہ دریا ہے جس پر راوی ستلج اور بیاس کی وادیوں کا بڑا حصہ انحصار کرتا ہے۔ دریائے چناب پر بنائے جانے والے کسی بھی بھارتی منصوبے کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے۔ یہی نہیں بڑی چالاکی سے انڈس واٹر ٹریٹی میں شق رکھی گئی کہ دریائے جہلم کی کسی ٹریبیوٹری پر پاکستان کے uses نہ ہوں تو بھارت اس ٹریبیوٹری کے پانی کو جہلم کی کسی دوسری ٹریبیوٹری میں منتقل کر سکتاہے۔ نیلم دریا‘ دریائے جہلم کی بڑی ڈسٹری بیوٹری تھی جس کے ندی نالوں پر کام کیا جاتا تو پاکستان سات ہزار میگاواٹ کے پاور پراجیکٹ بنا سکتا ہے۔ لیکن! ہمارے نام نہاد بزرجمہروں نے نیلم جہلم ہائیڈروپراجیکٹ کو موخر کرتے ہوئے پہلے غازی بروتھا ڈیم بنانے کو ترجیح دی۔ اسکے نتیجہ میںعالمی عدالت میں پاکستان کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ آج یہی کھیل کالاباغ اور بھاشا ڈیموں کی تعمیر میں رچایا جا رہا ہے۔ کیا ہمیں جب ہوش آئیگا جب پاکستان کو بنجر بنانے کے بھارتی ایجنڈے پر کام مکمل ہو چکا ہوگا!!!
غازی بروتھا ہو یا دیامر بھاشا ڈیم‘ ہر منصوبہ پاکستان کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سوال اسکی ترجیح کا آتا ہے۔ غازی بروتھا پراجیکٹ کو نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ پر ترجیح دے کر ہم نے بھارت کے مقابلہ میں ہزیمت اٹھائی اور یہی ناکامی ہمیں کالاباغ ڈیم کو موخر کرنے کی صورت میں اٹھانا پڑیگی۔ سوال یہ نہیں کہ بھاشا ڈیم بننا چاہیے یا نہیں‘ اصل مقصد یہ ہے کہ آبی مسائل کو حل کرنے کیلئے ہماری بہترین سٹریٹجی کیا ہونی چاہیے؟ حکومت دیا میر بھاشا ڈیم کو پہلے تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ مگر کیا اسکے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اس بڑے پراجیکٹ کیلئے سرمایہ مہیا کر سکے؟ دیامر بھاشا ڈیم تعمیر کرنے کی وجہ سے قراقرم ہائی وے کا 110کلومیٹر سڑک ڈیم میں آجانے کی وجہ سے دوبارہ تعمیر کرنا پڑیگا۔ KKHبنانے میں کتنا وقت اور وسائل درکار ہوں گے۔ کیا WAPDAکو اِس کا احساس نہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم کا تخمینہ ظاہر کرتے ہوئے سڑک کی قیمت کو شامل نہیں کیا گیا۔ عوام کو قیمت کے متعلق سچی بات نہیں بتائی جا رہی۔یہ بات انتہائی اہم ہے کہ پٹن اور تھاکوٹ پاور پراجیکٹس کی تعمیر کے وقت ان منصوبوں سے متاثر ہونیوالی شاہراہ ریشم کو ازسر نو تعمیر کرنا پڑیگا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تھاکوٹ سے بھاشا ڈیم تک شاہراہ ریشم کو دریائے سندھ پر بننے والے تمام منصوبوں کے مطابق ڈیزائن کرکے تعمیر کیا جاتا اور پھر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع ہوتی تاکہ بار بار سڑک کو تعمیر کرنے کے بھاری اخراجات سے بچا جا سکتا اوراس دوران کالاباغ ڈیم تعمیر کر لیا جاتا۔ عالمی ادارے اور ماہرین ماحولیاتی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو 2025ء کے بعد قحط زدہ ممالک کی صف میں شامل ہوتا دکھا رہے ہیں۔ اگر آج ہم نے بھی عالمی ماہرین کی باتوں کو نظر انداز کیا تو پھر ۔۔۔!!!