قدیم مصری تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر پر فراعنہ کے 60خاندان نے حکومت کی۔ عقیدے کے اعتبار سے ان حکمرانوں میں خدا کا تصور موجود تھا۔ وہ دوسرے جنم یعنی مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر یقین رکھتے تھے۔ وہ ستاروں کی گردش اور اپنے دیوتائوں کو حکومتی اور نجی امور میں دخیل سمجھے تھے۔ وہ شان و شوکت اور بہت ہی کرّ وفرّ کے ساتھ زندگی گزارنے کے عادی تھے ان کے زمانوں میں جادو گری کا بڑا چرچا تھا۔ وہ اپنی موت اور موت کے بعد قبر کی زندگی کو یاد گار اور ممتاز بنانے کے متمنی تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنی زندگی میں ہی پر شکوہ مقابر تعمیر کروائے تھے جو اہرامات کے نام سے مشہور ہوئے۔ قاہرہ شہر سے تقریباً 15کلو میٹر کی مسافت پر علاقہ جیزہ میں تعمیر کئے گئے اہرامات دنیا کے سات عجائبات میں سے پہلے نمبر کے عجوبہ ہیں۔ جیزہ کے اہرمات میں سے پہلا اور بڑا اہرام (Pyramid)فرعون خوفو کا، درمیانہ اہرام فرعون خَفَرَع کا اور چھوٹا اہرام فرعون منکَرَع کا ہے ۔ میں 1982ء میں جب ازہر میں طالب علم تھا تو ہمارے نصاب میں قدیم مصری ثقافت کا مضمون بھی شامل تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ہمارے شیخ عبدالرحمن لیکچر دے رہے تھے تو انہو ںنے فراعنہ کے بودوباش ان کی شخصیات ، ان کی حکمرانی، ان کے عقائد اور ان کے رویوں کا تفصیلی ذکر کرنے کے ساتھ چھوٹے اہرام والے فرعون منکرع کے نام کی توجیہہ کرتے ہوئے اپنے لیکچر میں کہا کہ ُاس فرعون کا نام مَنکَرَع نہیں بلکہ مَنکَورَع تھا۔ بعض کُتبِ تاریخ میں اس کا نام منکرع لکھا ہوا ہے جو کہ درست نہیںاور یہ بھی بتایا کہ فراعنہ کے خاندان میں ایک ایسا فرعون بھی تھا جو ایک خدا کی خدائی پر ایمان رکھتا تھا وہ مُوَحد تھا اور اس زمانے کے نبی پر ایمان رکھتا تھا۔ خوفو، خفرع ، اور منکورع کے یہ مقابر یعنی اہرامات جس طرز اور جس شکل میں ایستادہ ہیں، موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی جو آخری حدوں کو چھو رہی ہے ایسی نہیں کہ دنیا کے بڑی سے بڑی تعمیراتی کمپنی لاکھ جتن کرے اہرام جیس عمارت نہیں بنا سکتی اہرامات میںچُنے گئے جو سو سو ٹن وزنی پتھر کے بلاک آپس میں ایسے جوڑے گئے ہیں کہ ان کے درمیان جوڑ تلاش کرنا بھی ناممکنات میں سے ہیں۔ سائنسی نظریات کی اگر بات کی جائے تو دو ہمجنس چیزیں آپس میں جوڑ کر درمیان میں سے ہوا کو خارج کیا جائے تو وہ دو ہمجنس چیزیں آپس میں جُڑکر ایک چیز بن جائے گی۔ اگر سائنس کی اس تھیوری کو مان لیا جائے تو کیا اس وقت کے فراعنہ دور کے تعمیرات کے ماہرین کیا اس تھیوری سے واقف تھے؟ کیا انہوں نے ایسے ہی طریقے سے ان ٹنوں وزنی تراشے گئے پتھروں کو جوڑا تھا؟ فرعون خوفو کے اہرام کی بلندی 1485فٹ اور یہ 13ایکڑ رقبے میں پھیلا ہوا ہے ۔ اور اس کا وزن 65لاکھ ٹن بیان کیا جاتا ہے ۔ اور میں قاہرہ میں قیام کے دوران اس کے اندر بھی گیا ہوں اور انسانی عقل اس بات پر حیران ہے کہ اہرام میں استعمال کئے گئے چھبیس لاکھ بلاک پہاڑوں سے کس زاویہ اور کس طریقے سے کاٹے گئے تھے؟ اسے انسانی عقل سوچنے پر مجبور ہے کہ کتنے مزدور تھے جو اہرام کو بنانے والے تھے ان کی تعداد کیا تھی ۔ جب کہ یہ بات ثابت نہیں کہ اس وقت دھماکہ خیز مواد موجود تھے نہ ہی ڈائنامائیٹ ۔لیکن پہاڑوں سے ان بھاری برکم بلاکوں کو کن اوزار کے ساتھ کاٹا گیا تھا۔ اور چٹانیں کیسے توڑی گئی تھیں؟ اور علاقہ جیزہ میں جہاں اہرامات تعمیر کی گئیں تھیں اس جگہ کیسے لائی گئیں؟ اور کن انجینئروں نے انہیں ڈیزائن کیا تھا؟ غور کیجئے اگر ہر روز دس بلاک یا پتھر بھی بنائے گئے تھے تو صرف خوفو کے اہرام یعنی بڑے اہرام کی تعمیر میں 680سالوں میں مکمل ہو سکتی تھی اور اگر ہر روز 100 پتھر اہرام میں لگائے جاتے تو ستر سالوں میں صرف ایک اہرام کی تعمیر مکمل ہو سکتی تھی۔ اور جو سرخ پتھر فرعون خوفو کے اہرام کے کنگز چیمبر میں لگے ہوئے ہیں وہ تقریباً میلوں دُور پہاڑوں یعنی وادی الملوک سے کیسے جیزہ کے علاقے میں لائے گئے تھے؟ تا ہم سائنسی طور پر کہا جاتا ہے کہ جو بھی چیز عمارت مخروطی اور مثلث شکل میں ہو گی اس پر مقنا طیسی لہریں فوراً مرکوز ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اند ر جو بھی چیز ہو گی وہ گلنے اور سَڑنے سے محفوظ رہے گی۔ چنانچے فراعنہ کے انجینئروں نے اپنے حکمرانوں کی لاشوں کو محفوظ رکھنے کے لئے اہرامات بنانے کا تصور دیا تھا۔ اس لیے بھی شاید اس زمانے کے فراعنہ نے حنوت شدہ لاشوں کو ان اہرامات کے اندر محفوظ کرنے کا مشورہ دیا ہو گا۔ اور حنوت شدہ لاشوں کو محفوظ کرنے کا عندیہ در اصل ہنومس دیوتا کہ تصوراتی مشورے سے کیا جاتا تھا۔ اس دیوتا کے بارے میں فرعونیوں کا خیال تھا کہ وہ خوشبوئوں کی دنیا سے وابستہ ہے۔ اس دیوتا کی تصویریں اور فرعون کی ملکائوں اُس کی کنیزوں ،شہزادوں اور شہزادیوں کی تصویروں سے اہرامات کے اندرونی حصوں کی دیواروں میں اور وادی الملوک کے پہاڑوں کے ٹنلوں میں جو میں نے دیکھیں مزئین نظر آتی ہیں۔ قدیم مصر کے فراعنہ یا ان کے چہیتے مرجاتے تو قدیم مصری ہنومس دیوتا کا ماسک یا خول چہرے پر چڑھا کر لاش کو کھڑا کر دیتے اور اس کے قریبی لواحقین اس کے سامنے وداعی گیت گا گا کر آہ بقا کرتے اور یہ بھی ہوتا کہ مرنے والے فرعون کے اندرونی اعضاء پیٹ سے باہر نکال کر ان کو دھویا جاتا ( جاری ہے)