بچپن سے اب تک ہماری پہلی دعا یہی رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ابو کو صحت وزندگی دے اور ان کی پریشانیاں دور فرمائے۔ہم نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہاں صوم و صلوۃ ، زکوۃ و خیرات ، مہمان نوازی ، بڑوں کا احترام ، چھوٹوں پر شفقت ، بہن بھائی کی محبتوں کی مثالیں ، شاہنامہ اسلام اور تاریخی واقعات سینہ بسینہ منتقل کئے جاتے تھے۔اپنے بچوں میں وطن سے محبت کا جذبہ ، مشاہیر پاکستان کی طرح زندگی گزارنا اور یہ کہنا کہ وطن ہے تو ہم ہیں ورنہ ہم کچھ نہیں۔والد محترم عزیز ظفر آزاد (مرحوم) جن کے ساتھ مرحوم لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے اور آنسوبے قابو ہیں جنہیں سب سے برا کام رونا لگتا تھا۔وہ کہتے تھے کہ اپنے ماں باپ کے سامنے بھی نہ رویا کرو،صرف اور صرف اللہ کے سامنے رو۔والد محترم سونے کا نوالہ کھلاتے لیکن دیکھتے شیر کی نظر سے ، مگر بچوں کی خاموشی سے ان کی پریشانی کو بھانپ لیتے۔بچپن میں ہمیں لڈو کیرم کے ساتھ ساتھ کرکٹ ،بیڈمنٹن ، کراٹے اور سائیکل چلانے کی بھی ترغیب دیتے ۔ اسی طرح نماز، تلاوت قرآن پاک کی پابندی پر بھی زور دیتے۔وہ بیٹیوں کو بیٹوں پر فوقیت دیتے اور کہا کرتے تھے کہ یہ تو چڑیاں ہیں اڑ جائیںگی، اسکے باوجود ان کا ہر بچہ یہ دعو ی کرتا ہے کہ انہیں اس سے زیادہ پیار ہے ۔پانچوں بچوں کے اکٹھے ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے کہ اللہ کا مجھ پر کرم ہے کہ میرے سب بچے خوش ہیں اور میرے پاس ہیں۔ نواسے نواسیوں کے ساتھ کھیلنا ، انہیں کمر پر بٹھانا اور کہنا کہ میں سنت ادا کر رہا ہوں مگر ان سے کبھی پاؤں نہ دبوائے کہ یہ سید زادے ہیں اگر پاؤں کو ہاتھ لگائیں گے تو مجھے گناہ ملے گا ۔ایک طرف بڑی بہن کے پاؤں کو چومنا اور کہنا کہ آپا میری جنت ہیں تو دوسری طرف اپنی بیوی کو جان کی قسم دیکر نوالے کھلاتے۔کیا بتاؤں میرے الفاظ کم پڑ جائیں گے مگر ان کی باتیں ہمیشہ یاد رہیں گی ۔والد محترم نظر کمزور ہونے کے باوجود ہزاروں لاکھوں بیناؤں سے کہیں بہتر سوچ وفکر کے حامل انسان تھے۔ ملک و قوم اور قومی زبان کیلئے جدوجہد کرتے رہے ۔ تحریک نفاذ اردو کانفرنسوں کی کامیابی کیلئے نوافل ادا کرتے اور کہا کرتے تھے کہ یہ کام میں اپنی آخرت کیلئے کر رہا ہوں اللہ ہمیں کامیاب کرے۔نوائے وقت اور قبلہ مجید نظامی (مرحوم ) سے انہیں والہانہ لگاؤ تھا ۔نوائے وقت میں لکھنا اپنے لیے اعزاز سمجھتے تھے۔ سیاست دانوں سے اچھے مراسم ہونے کے باوجود کبھی کوئی ذاتی مفاد حاصل نہیں کیا ۔ ہمیشہ صاحب اقتدار افراد پر تنقید کی مگر تعمیری۔آپ مسکینوں ، یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرنا اپنا فرض اولین سمجھتے تھے۔زندگی میں ہم کتنے ہی بڑے یا کامیاب ہوجائیں ماں باپ کیلئے بچے ہی رہتے ہیں اور ہمیشہ یہ یقین ہوتا ہے کہ کوئی بھی مشکل آئے ہمارے والدین کی دعائیں ہمیں اس مشکل سے نکال دیں گی ۔ مجھے یاد ہے کہ بی اے کا امتحان قریب تھا ۔مجھے ڈائیریا ہوگیا ، طبیعت شدید خراب تھی اور ہسپتال میں زیر علاج تھی ۔والدہ اور پھوپھو کا ااصرار تھا کہ بیٹا اس سال امتحان نہ دو مگر ابو نے کہا کہ زندگی میں مشکلات آتی ہیں ان کا سامنا کرو جو سامنا نہیں کرتے وہ پیچھے رہ جاتے ہیں، تمیں امتحان دینا چاہئے حصول علم کیلئے جو مرجاتے ہیں وہ شہید کا درجہ پاتے ہیں۔اسی طرح زندگی کے ہر قدم پر اپنے بچوں سمیت دوست و احباب کو متحرک کیا ۔آپ اکثر کہا کرتے تھے۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جاتی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
قارئین کرام ۔ زندگی میں کچھ ایسے واقعات جو زندگی بدل دیتے ہیں کسی اپنے کے ہونے یا نہ ہونے سے جو فرق پڑا وہ اب پتہ چلا ۔ کچھ ایسے رشتے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوں انکی قدروقیمت ہمیں ان کے جانے کے بعد زیادہ محسوس ہوتی ہے ۔ہم جنہیں کھونے کا سوچ بھی نہیں سکتے پھر ان کا کھو جانا ایسا ہے جیسے کسی سایہ دار درخت کا کٹ جانا ،کسی گھر کی چھت کا گر جانا یا ایسا نقصان جس کا کوئی ازالہ نہ ہو ۔4جون کو عزیز ظفر آزاد ہم سب کو چھوڑ کر اس جہان فانی سے رخصت ہوگے ۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور انکے درجات بلند کرے۔آمین