اسلام آباد(نا مہ نگار)اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ایل این جی ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے وکیل بیرسٹر ظفر اللہ نے فردِ جرم پر سوالات اٹھا دیئے ہیں، ایل این جی ریفرنس میں گواہ کا بیان جاری،عدالت نے سابق وزیر اعظم کی طرف سے عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد کردی ہے،جمعرات کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد اعظم خان نے ریفرنس کی سماعت کی،سماعت کے دوران شاہد خاقان عباسی اور ان کے وکیل بیرسٹر ظفر اللہ عدالت پیش نہ ہوئے جن سے متعلق استفسارپر معاون وکیل نے کہاکہ وکیل راستے میں ہیں کچھ دیر میں عدالت پہنچ جائینگے، اس موقع پر شریک ملزمان مفتاح اسماعیل سمیت دیگر ملزمان کی جانب سے ایک روز حاضری سے استشنی کی درخواستیں دی گئیں، عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیاجس کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہونے پر شاہد خاقان عباسی اور بیرسٹر ظفر اللہ عدالت پیش ہوئے، بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ منی لانڈرنگ اور نہ جانے کیا کیا چیزیں فردِ جرم میں ڈال دی گئی ہیں۔جج اعظم خان نے کہا کہ یہ فردِ جرم ہے جسے نیب کی جانب سے ثابت کیا جانا باقی ہے، عدالت تو شواہد دیکھ کر ہی سزا دے گی، شواہد نہ ہوئے تو بری کرے گی، اب فردِ جرم میں تو ترمیم نہیں کی جا سکتی۔بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ میں شاہد خاقان عباسی پر فردِ جرم میں ترمیم کا نہیں کہہ رہا، شاہد خاقان عباسی کو فردِ جرم کی کاپی دے کر کچھ وقت تو دیتے۔بیرسٹر ظفراللہ کی ہفتے میں ایک دن مختص کرنے کی استدعاکرتے ہوئے کہاکہ جو دن مختص کیا جائے گا اس دن ہم یہاں موجود ہوں گے،عدالت نے کہاکہ سینیئر وکلا کبھی ہائیکورٹ میں ہوتے ہیں، کبھی سپریم کورٹ میں،ہم آپکو کراس ایگزامن کے لیے تکلیف دیا کریں گے،آپ اپنا کوئی نمائندہ مقرر کر دیں جس کے سامنے بیانات قلمبند ہو سکیں،بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ جس طرح باقی کیس چلتے ہیں ویسے ہی یہ کیس بھی چلے گا، صاف بتا رہا ہوں اس کیس کو نواز شریف کیس نہیں بننے دیں گے، نیب والے کھڑے ہیں، میں بتا دوں وہ نہیں ہونے دیں گے جو نواز شریف کیس میں ہوتا رہا۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کا آڈر آپ کے سامنے ہیں،بیرسٹر ظفر اللہ نے کہاکہ جی سپریم کورٹ کا آڈر جانتاہوں،عدالت کے جج نے کہاکہ30کیسز ہیں جو چل رہے ہیں ان سب کو 1دن میں نہیں چلا سکتے،ججز وکلا سے سیکھتے ہیں، بیرسٹر ظفر اللہ نے کہاکہ ہم آپ سے سیکھتے ہیں،آپ بتائیں کون سا دن ہونا چاہیے،بیرسٹر ظفر اللہ نے کہاکہ آپ جو دن مناسب سمجھیں وہ فکس کر لیں گے،نیب نے جس ترتیب سے گواہوں کی لسٹ دی ہے اس کے حساب سے چلیں تو ہمیں آسانی ہو گی،جس کے بعد نیب کے گواہ اسٹیٹ ڈائریکٹر منسٹری آف پٹرولیم محمد حسن کا بیان قلمبند ہونا شروع کیاگیا، گواہ نے حلف لیتے ہوئے کہاکہ6نومبر2019کو تفتیشی افسر کے سامنے پیش ہوا،تفتیشی افسر کے سامنے اوریجنل دستاویزات کے ساتھ پیش ہوا،سیزر میمو پر دستخط کیے اور اپنا بیان ریکارڈ کروایا،28نومبر 2019کو میں دوبارہ تفتیشی آفیسر زبیر احمد کے سامنے پیش ہوا،میں نے تمام متعلقہ ریکارڈ تفتیشی آفیسرکے سامنے پیش کیا، وکلا صفائی کی مداخلت پر پراسیکیوٹر نے کہاکہ بار بار مداخلت نہ کی جائے،تھوڑا صبر کریں یہ وائٹ کالر کرائم ہے،وکیل صفائی نے کہاکہ ہمیں نا بتائیں وائٹ کالر کرائم کا،گواہ نے کہاکہ 24فروری2007 کو عمران احمد کی جانب سے لکھا گیا خط چیئرمین اوگرا کو بھیجا گیا،خط ایل این جی نیٹ ورک کے زریعے گیس سپلائی کرنے سے متعلق تھا، بیرسٹر ظفراللہ نے کہاکہ یہ آپکو مجبور کر کے سب لکھوا رہے ہیں،پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہم روز لکھواتے ہیں،دوران سماعت عدالت نے شاہد خاقان عباسی کی طرف سے عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہاکہ یہ اوپن کورٹ ہے، اس پر سابق وزیر اعظم نے کہاکہ کیمروں کو عدالت لانے کی اجازت دی جائے جس پر عدالت نے کیمرے عدالت لانے کی استدعابھی مسترد کردی،دوران سماعت نیب کے پہلے گواہ کا بیان جاری رہا، بیرسٹر ظفراللہ نے کہاکہ کچھ دستاویزات غیر دستخط شدہ ہیں،اس پر نیب پراسیکیوٹرنے کہاکہ آگے دستخط والی دستاویزات بھی آئیں گی انتظار کریں ،بیرسٹرظفر اللہ نے کہاکہ آگے بھی ہمیں پتہ ہے کیا کچھ آنا ہے،نیب پراسیکیوٹرنے کہاکہ آگے کا پتہ اللہ کو ہی ہے کیا نتیجہ نکلنا ہے نہ مجھے نہ آپ کو ، بیرسٹرظفر اللہ نے کہاکہ اس کیس میں میرا اِرادہ کچھ اور ہی ہے آپ کو آگے چل کر بہت کچھ بتاوں گا،اس کیا میں ہم سے کیا مذاکرات ہوتے رہے جیل میں کون ملتا رہا سب بتاوں گا،پراسیکیوٹر نے کہاکہ آپ کے ذاتی معاملات سے میرا کچھ لینا دینا نہیں ،گواہ کا بیان جاری رہااور عدالت نے آئندہ سماعت پرمحمد حسن بھٹی کو بھی حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت یکم دسمبر تک کیلئے ملتوی کردی۔بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عدالت میں کیمرہ لگائیں تاکہ عوام دیکھ سکیں کہ عدالتوں میں کیا ہورہا ہے اور نیب کیا کر رہی ہے۔ہم عدالتوں سے نہیں گھبراتے کیونکہ ہم حق پرہیںچارج شیٹ میں کرپشن کا الزام نہیں رام کہانیاں ہیں، صرف ایک چارج ہے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عدالتی کارروائی دکھانے کی درخواست کی تھی۔ درخواست دائرکی تھی کہ عدالتی کارروائی براہ راست دکھائی جائے۔کیمرے لگائیں اور عوام کو دکھائیں کون سی چارج شیٹ لگائی ہے،انہوں نے کہا کہ مجھے 26صفحے کی چارج شیٹ دی گئی ہے، جس کے 26نکات ہیں۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ریفرنس میں10اور 9صفحے ہیں جبکہ چارج شیٹ 26صفحے کی ہے، سیاستدانوں کی بے عزتی کرنے کے لیے الزامات کی فہرست لگائی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ کیا عوام کے ووٹ سے منتخب ہونا قانون کی خلاف ورزی ہے، کیا وزیر اعظم ہونا قانون کی خلاف ورزی ہے؟شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کیمرے لگائیں اور عوام کو دکھائیں کہ کون سی چارج شیٹ لگائی ہے، ڈھائی سال میں پارلیمان میں عوام کی کوئی بات نہیں ہوئی، غیر نمائندہ، متنازع حکومت سے کوئی بات نہیں کریں گے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ بات کا وقت تھا، پارلیمان تھا، موقع تھا، جمہوری عمل بڑھانے پارلیمان میں آئے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کیا عوامی ووٹ سے منتخب ہونا خلاف ورزی ہے؟ ملک میں کرپشن عروج پر ہے۔ہم عدالتوں سے نہیں گھبراتے کیونکہ ہم حق پرہیں۔انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات وہاں ہوتی ہیں جہاں الیکشن قاعدے کی پاسداری کی جاتی ہو، کیا وزیر اعظم ہونا قانون کی خلاف ورزی ہے؟چیئرمین نیب کو ہمت ہے تو ٹی وی پر آکر بتائیں کون سی کرپشن ہوئی ہے ہم اس عدالت کا احترام کرتے ہیں،ارشد ملک کیس کے بعد نیب کی عدالتوں کا معاملہ مشکوک ہی ہو چکا ہے،ایف آئی اے افسر کہتا ہے چینی میں چار سو ارب کی کرپشن ہوئی اس کو ٹرانسفر کیا جاتا ہے،انہوں نے کہا کہ جس طرح کا سوالنامہ مجھے دیا جاتا رہا ویسا ہی عاصم باجوہ کو بھیجیں،ہم نے کہا تھا یہ عدالتی کارروائی ٹی وی پر دکھائیں۔