سر سید کی تعلیمی پالیسی قوم کے مرضِ غلامی کا پہلا نسخہ تھا جو وقت کے لحاظ سے مناسب اور موافق مزاج تھا۔ سر سید وقتی مصالح کے تحت اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کے اہل تھے۔ چنانچہ اُن کی تعلیمی پالیسی میں بھی ردوبدل ہوا۔ اُن کو بعض اصولوں پر بھی سمجھوتا کرنا پڑا۔ اس کی مثال میں ان کی تحریروں میں سے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں جن سے یہ نکتہ خودبخود واضح ہو جاتا ہے۔ذیل کا اقتباس ایک طویل عرضداشت کے صرف چند جملے ہیں جو 1867ء میں ’’برٹش انڈین ایسوسی ایشن‘‘ کی طرف سے جس کے بانی سرسید تھے حکومت کو پیش کی گئی تھی۔ اس میں سرسید نے مقامی زبان کو اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ بنانے پر پورا زور دلائل صرف کیا ہے۔ یہ پوری عرضداشت آج بھی پاکستان میں ہمارے حکامِ اعلیٰ کے مطالعے کے لائق ہے۔ ایک لمبی چوڑی تمہید کے بعد لکھتے ہیں : ’’تعلیم جو اَب ترقی کرنے سے تھکی ہوئی ہے اس کی اس حالت کے اور بھی کئی باعث ہیں جن میں سب سے بڑا باعث یہ ہے کہ صرف انگریزی کی تحصیل کے ذریعہ سے ہر ایک طالب علم اس قدر درجے یا اخلاق اور تربیت کے اس قدر مرتبے کو نہیں پہنچا جس کی لوگ تعظیم و تکریم کریں یا جس سے اُن کے والدین کو معلوم ہو کہ اُنہوں نے نہایت اعلیٰ درجے کی تعلیم پائی ہے… ہماری خواہشیں یہ ہیں کہ جو کوششیں انگریزی زبان کی اشاعت کے لئے بالفعل کی جاتی ہیں وہ جاری رہیں… مگر ایک طریقہ تعلیم کا جو کہ عام تعلیم کی ترقی کے لیے زیادہ مؤثر تصور کیا جاتا ہے، قائم اور جاری کیا جائے… بجائے اس بات کے کہ صر ف انگریزی ہی زبان میں تعلیم کی جائے، دیسی زبان کو بھی تعلیم کے اعلیٰ درجے کے مضمون اور مطالب میں لوگوں کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ گردانا جائے‘‘ ’’کہا جا سکتا ہے کہ اس تجویز کا ایک مدت ہوئی تصفیہ ہو چکا مگر ہم اس کے سخت مخالف ہیں کیوں کہ جو کچھ تجویز کرتے ہیں اُس پر کبھی مباحثہ تک نہیں ہوتا ہے۔ جس حالت میں کہ ہم انگریزی کی تعلیم قائم رکھیں اور اُس کی ترقی میں کوشش کریں تو کیا ہم کسی دیسی زبان کو اس قسم کا ذریعہ اختیار او رتجویز نہیں کر سکتے جو ایک غیر ملکی زبان کی نسبت علم کے عموماً شائع ہونے اور لوگوں کے خیالات اور طور طریقے اور اخلاق کی ترمیم کے واسطے زیادہ تر مناسب ہو؟ یہ ممکن نہیں کہ ان کروڑوں آدمیوں کو ایک ہی زبان ،وہ بھی نئی، سکھائی جائے… بس اگرچہ بات ممکن نہیں تو بجز اس کے اور کوئی علاج اور تدبیر نہیں کہ دیسی زبان کو ذریعہ تعلیم ٹھہرایا جائے۔ اگر علم کی تحصیل غیر ملک کی زبان کے ذریعہ سے کی جائے تو اس میں دوچند وقت صرف ہوتا ہے۔ اوّل تو خود زبان ہی کے سیکھنے میں وقت خرچ ہوتا ہے اور اِسکی تحصیل میں ہزاروں طالب علم اس قدر وقت کھوتے ہیں کہ پھر اس زبان کے ذریعہ سے۔کسی مفید علم کو تحصیل کرنے کے واسطے وقت باقی نہیں رہتا۔’’دو کالج اب ایسے موجود ہیں جن کی سند ہم اپنی تجویز کے مفید ہونے کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ ایک تو ٹامس سول انجینئرنگ کالج رڑکی کی شاخ، دوسرا میڈیکل کالج آگرہ کی شاخ اُردو۔ ہر ایک کو ایک ہی قسم اور ایک ہی درجے کے علم سکھائے جاتے ہیں یعنی جن کتابوں کی تحصیل اُردو فریق کے طالب علم کرتے ہیں وہ کتابیں بالکل ان کتابوں کا ترجمہ ہوتی ہیں جو انگریزی طالب علموں کے استعمال میں ہوتی ہیں۔ امتحان کے سوالات دونوں فریق کے یکساں ہوتے ہیں۔ کبھی اُردو فریق والے کا طالب علم انگریزی فریق کے اپنے ہمسر سے بہتر نمبر حاصل کرتا ہے۔ میڈیکل کالج آگرہ میں یہ بات معلوم نہیں ہوئی کہ اُردو کے طالب علم اپنے انگریزی کے ہمسرطالب علموں سے ان منصوبوں کے بخوبی تحصیل کرنے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔‘‘ ’’ہم مسکینی اور نہایت عاجزی سے گزارش کرتے ہیں کہ گورنمنٹ ہند اعلیٰ درجے کی تعلیم کا ایسا سرشتہ قائم کرے جس میں بڑے بڑے علوم و فنون کی تعلیم دیسی زبان میں ہوا کرے۔ جو کتابیں یونیورسٹی کے امتحان کی فہرست میں مندرج ہیں۔ ان کے ترجمے دیسی زبان میں ہو سکتے ہیں اور بعض منصوبوں کی اصل کتابیں تصنیف ہو سکتی ہیں۔ علی گڑھ کی سائینٹفک سوسائٹی اس کام کو انجام دے رہی ہے؟؟ اور ایک جگہ افسوس کرتے ہیں کہ ’’دیسی زبان بطور ایک غیر ملکی زبان پڑھائی جاتی۔۔۔ ہندوستان کے مدرسے گویا انگریزوں کے لڑکوں کی تعلیم گاہیں ہیں۔‘‘قارئین بلاشبہ سر سید احمد خاں انگریزی تعلیم کے حامی تھے مگر اُردو کو بطور ذریعۂ تعلیم اپنانے میں وہ کس قدر سنجیدہ تھے۔ ہم نے صرف اُن کے چند اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کئے ہیں۔ سر سید کی تعلیمی پالیسی میں مرکزِ نظر کردار نہیں تھا۔ مادی او رسیاسی مفادات تھے۔ سر سید کو خود بھی احساس تھا کہ وہ اپنی تعلیمی پالیسی مرتب کرنے میں آزاد نہیں تھے۔ فرماتے ہیں:
’’ہماری پوری تعلیم اُس وقت ہو گی جب کہ ہماری تعلیم ہمارے ہاتھ میں ہو گی۔ ہم آپ اپنی تعلیم کے مالک ہوں گے۔‘‘
بادی النظر میں یہ ایک کامیاب حکمت ِ عملی تھی۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیںکہ پاکستان اس حکمت عملی کا ثمرہ ہے لیکن اس سفر میں ہم نے کچھ کھویا بھی ہے۔ یہ نقصان اقدار و کردار کی حدوں میں واقع ہوا ہے۔
افسوس کہ آج 74 سال بعد بھی ہماری تعلیم ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی قومی زبان اُردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے بجائے ہم نے ایک غیر ملکی زبان انگریزی کو اپنایا ہوا ہے۔