کیا اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دے پائے گی 

,,بچہ جمورا‘‘ مالک کی آواز پر بچہ جمورا الرٹ ہوگیا ,,بچہ جمور مالک‘‘ نے دوبارہ آواز دی گھوم جا گھوم گیا ,,بچہ جمورا‘‘ نے جواب دیا۔ کیا دیکھتا ہے حکومت پانچ سال پورے کر پائے گی بچہ جمورا تھوڑے تذبذب سے بولا کچھ واضح دکھائی نہیں دیا۔ اس با ر مالک کو غصہ آگیا وہ پھر بولا ,,گھوم جا گھوم گیا‘‘۔ بچہ جمورا کی آواز آئی ۔ لوگ منتظر ہیں جلدی بتا کیا دیکھا مالک جلدی سے بولا سیاسی انتشار ۔ بچہ جمورا بولا اب مجمع میں اضطراب پیدا ہوا کہ ایک سادہ سا جواب ہی نہیں مل پارہا کہ حکومت پانچ سال پورے کر پائے گی کہ نہیں اور جواب سیاسی اور معاشی انتظار ہی ہے تو یقینا حکومت کے پانچ سال پورے کرنے کے بھی امکانات ہیں۔ افلاطون نے اپنی کتاب دی ریپبلک میں انتشارکی دو وجوہات لکھی ہیں ۔ جس مین نمبر ون مصنوعی انتشار ہے جسکا مقصد حکومت کی پالیسیوں پر مثبت انداز سے تنقید کی بجائے حکومت پر تنقید اور حکومت کو گھر بھیجنا ہوتا ہے اور اس مقصد کیلئے اپوزیشن ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہے دوسری وجہ حکومت کی ترجیحات ہیں جو حکومت کو راہ راست پر رکھتی ہیں اور ھٹا بھی دیتی ہیں زبردست قوت فیصلہ اور معاملات کی دوستی میں ہی حکومت کی بقا ہے تاریخ میں امیر معاویہؓ کا طریقہ حکومت میں تین اصول نماں تھے اور یہ ان کے وضع کردہ تھے طاقت کا استعمال تحمل اور زرپاشی ان سے وہ اتحادیوں اور مخالفیں کا دل جیت لیتے تھے حکومت کے پاس بھی کوئی نہ کوئی گیدڑ سنگھی موجود ہے جس سے آخرکار وہ اتحادیوں کو اپنے ورش میں کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے اور اپوزیشن کا حکومت کو گھر بھیجنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا ہے ہماری سیاست نے ایک نیا پینترا بدلا ہے کہ ہر آنے والی حکومت کو گھر بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے اب حزب اقتدار کی تمام توجہ تعمیری کاموں کی بجاے اپنی اور حکومت کی بقا پر صرف ہوجاتی ہے ایک کہاوت ہے کہ ایک ریاست جب زوال کا شکار ہونے لگی تو مدبرین کی کمیٹیاں بٹھائی گئیں کہ کھرا نکالا جائے کہ کون قرار واقعی ذمہ دار ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ خرابیوں کا ذمے دار تو وہ شخص تھا جس نے روز اول سے خرابیوں کی بنیاد رکھی اور معاملات اس نہج تک جا پہنچے کہ اصلاح کا کام جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا اور وہ شخص تو کب کا مرکھپ گیا سو اصلاح احوال بھی ناممکن ہے ہمارے معاشرے کی صورتحال بھی کچھ یہی ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ دوچورکسی گھر میں چوری کرنے گئے واپسی پر ایک چور کے پاؤں سے کوئی چیز ٹکرائی مالک کی آنکھ کھل گئی۔ کون ہے مالک غصے سے بولا میاؤن ۔آواز آئی اتفاقا دوسرے چور کے پاؤں سے بھی وہی چیز ٹکرائی مالک نے پوچھا کون ہے۔ دوسری بلی چور نے کہا ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہماری رسائی دوسری بلی تک نہیں ہے جسکا نتیجہ انتشار ہی ہے ایک اپوزیشن لیڈر سے پوچھا گیا کہ سیاسی انتشارکا حل کیا ہے مزید انتشار ۔ انہوں نے جواب دیا ہمارے ہاں سیاسی پارٹیوں کا یہ نظریہ رہا کہ حکومت سنبھالتے ہی تمام معاملات چٹکیوں میں حل ہوجائیں گے لیکن حکومت سنبھالنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ روز اول سے بگڑے ہوے معاملات کو درست کرنے کیلئے دوگنا وقت درکار ہے جبکہ حزب اختلاف اس بات پر مصر ہوتی ہے کہ اگر حکمران عوام کے لئے مخلص ہے تو وہ حضرت عمرؓ کی طرح رات بھر نہیں سوئے گا دریائے راوی کے کنارے بکری بھی پیاسی مرجائے تو حکمران جوابدہ ہوگا اور یوں ہم سیاسی انتشار کا وہ بیج بوتے ہیں جس سے تھوہر کے درخت اگتے ہیں سیاسی لیڈروں اور اپوزیشن رہنماوں کے پاس اگر چالیس سالہ تجربہ ہے تو میرا دعوی ہے کہ عمران خان کا ان کی محاذ آرائی سے نبرد آزماہوتے ہوتے تجربہ اکتالیس سال کا ہوگیا ہے سیکھنے کے لئے تو ساری زندگی بھی ناکافی ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن کو یہ سیکھنا پڑے گا کہ جمہوریت کا حسن جہاں تمام جماعتوں کو لے کر چلنا ہے اپوزیشن کو بھی اس تعمیری اندازکی بنیاد رکھنی ہے جہاں انتشارکو ختم کرکے استحکام کی بنیاد رکھی جاسکے اسوقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اچھی روایات کو جنم دیں قوموں کی زندگی میں پراسیس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے جس طرح جامن کے پودے سے سیب حاصل نہیں کیا جاسکتا اسی طرح بد امنی سے امن کے پودے کو ہوا نہیں ملتی ہے اور وہ کملا جاتا ہے ماہرین کے نزدیک سیاست کو تین عناصر میں تقسیم کیا جاسکتا ہے سیاست برائے اصلاح سیاست برائے تعمیرو ترقی اور سیاست برائے سیاست جس میں حکومت کیلئے لامتناہی مسائل کا انبار لگادینا اور حکومت ان مسائل میں اس طرح الجھ جائے کہ تعمیری منصوبے کھٹائی میں جا پڑیں۔

ای پیپر دی نیشن