کشمیر میں ثقافتی ورثہ ریاستی دہشت گردی کی زد میں

Nov 20, 2021

جنت نظیر کشمیر میں بھارتی فوج نے ایک اورمحاصرے کے دوران دو تاجر وں، ایک مزدور اور ایک ڈاکٹر کو شہید کر دیا ہے ۔ سری نگر کے نواحی علاقے حیدرپورہ میں پیش آنے والے اس اندوہناک واقعہ کے بعد کولگام کے علاقوں میں بھی تلاشی اور محاصرے کے نام پر پانچ مزید کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا گیا جبکہ تین نوجوانوں کی گرفتاری کی اطلاع ہے ۔ حیدر پورہ میں پیش آنے والے واقعہ کے متعلق  پولیس نے مختلف بیانات جاری کیے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ محض ایک دہشت گردی کی کارروائی ہے جسے کوئی جواز دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اولین پولیس نے کہا کہ جس عمارت کا محاصرہ کیا گیا تھا اس کا مالک اور اس میں موجود ایک ڈاکٹر شدت پسندوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے تاہم اس کے بعد یہ بیان سامنے آیا کہ چار افراد کی ہلاکت کراس فائرنگ کا نتیجہ ہے اور یہ پتا نہیں چل سکا کہ وہ کس کی فائرنگ سے شہید ہوئے جبکہ تیسرے بیان میں پولیس نے یہ دعوی کیا کہ جن لوگوں کو مارا گیا وہ عسکریت پسندوں کے حامی تھے جبکہ ان میں سے ایک فرد عسکریت پسند تھا اور ان سے بعض ہتھیار بھی برآمد ہوئے ہیں ۔ مقامی افراد اور شہداء کے لواحقین اس طرح کے دعووں کو من گھڑت قرار دے رہے ہیں ۔ ڈاکٹر مدثر بھی شہید ہونے والوں میں شامل تھے جو اس عمارت سے اپنا کاروبار بھی چلا رہے تھے ۔ ابھی تک پولیس اپنے دعووں کے ثبوت کے طور پر کچھ بھی پیش نہیں کر سکی بلکہ ابھی تک میتیں بھی خاندان کے حوالے نہیں کی گئیں ۔ مقامی افراد نے اس سلسلہ میں احتجاج بھی ریکارڈ کروایا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ ہمیشہ کی طرح بھارتی فورسز نے ظلم وجبر کاسہارا لیا ہے اور محاصروں کے دوران منظم انداز میںکشمیری نوجوانوں کی نسل کشی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔ اگر یہ نوجوان کسی قسم کی سرگرمیوں میں ملوث تھے تو ان کو عدالت میں پیش کیا جاتا ، نہتے اور غیر مسلح افراد جو کاروبار کررہے تھے ان کو ریاستی دہشت گردی کا شکار بنایا گیا ہے ۔یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ  مقامی مزدور عامر کے والد کئی سالوں سے بھارتی فورسز کے لیے کام کررہے ہیں ۔ بھارتی حکومت ایک آزادی پسند مجاہد کو پتھر سے مارنے پر انہیں انعام و اکرام سے بھی نواز چکی ہے جبکہ ان گھر پر بھی سیکورٹی اہلکار پہرہ دیتے ہیںاس کے باوجود ان کے بیٹے کو جو دانتوں کے سرجن تھے محاصرے کے دوران شہید کرنے کے بعد عسکریت پسند قرار دے دیا گیا۔ 
بھارت کے زیر قبضہ مقبوضہ کشمیر میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے تاہم کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے بعد ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مسلسل تیزی آتی گئی ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے ساتھ ہی مودی سرکار نے آٹھ ملین آباد ی کو دنیا بھر کے رابطوں سے کاٹ کر قیدی بنا لیا تھا ۔ کرفیو، انٹرنیٹ اور فون لائنز کی بندش، موبائل نیٹ ورکس پر پابندی سمیت کسی بھی قسم کی سماجی سرگرمیوں پر پابندی عاید کر دی گئی تھی ۔تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے ، تمام حریت پسند گروہوں کے ساتھ ساتھ بھارت نواز سیاسی رہنمائوں کو بھی نظر بند کر دیا گیا تھا ، مختلف سیاسی تنظیموں کے ہزاروں کارکنان کو یا تو نظر بند کر دیا گیا تھا یا پھر انہیں جیل بھیج دیا گیا تھا،ہر قسم کے مذہبی اجتماعات کے ساتھ ساتھ جنازوں میں شرکت پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی ۔ اس دوران کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا اور ساتھ ہی کشمیر میں ہندو آبادکاری کا عمل شروع کیا گیا۔ کشمیر تاجروں کو ڈرایا دھمکایا گیاکہ اگر وہ اپنے کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ہندوتاجروں کو اپنی زمینیں فروخت کرنا ہوں گی تاکہ وہ وہاں پر صنعتیں لگائیں اور اس بہانے سے ہندو آبادی کو وہاں منتقل کر سکیں ، اس دوران کشمیر کی صنعت وحرفت کو بری طرح نقصان سے دوچار کیاگیا جب کوئی تاجر تسلیم نہ کرتا تو ان کی دوکانوں اور مارکیٹوں کو نذر آتش کر دیا جاتا۔ سیکولر ریاست کے دعویدار ملک بھارت نے اپنی فورسز کے کالے قوانین بنائے تاکہ کشمیر کو مکمل ہندو ریاست بنانے کے خواب پر عمل کرنا چاہا لیکن کشمیری عوام کے عزم صمیم نے ان ارادوں کو پورا نہیں ہونے دیا ۔
ایک طرف تو بھارتی فورسز انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہے تو دوسری جانب کشمیر کے ثقافتی ورثہ کو بھی تباہ کرنے اور مٹانے کی کوششیں مسلسل کی جارہی ہیں ۔ مجموعی طور پر کشمیرمیں مسلمانوں کی اکثریت ہے اورمعاشرے پر اسلامی تاریخ ، ثقافت وتمدن کی جھلک نظر آتی ہے تاہم وہاں پر یقینی طور پر ہندو ، بدھ مت اور سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے بھی موجود ہیں ۔ بھارتی جنتا پارٹی کے برسراقتدار میں آنے سے اس کی حلیف ہندو انتہا پسند گروہوں نے جہاں بھارت کے اندر مسلمانوں اور عیسائیوں کو نقصان پہنچانے کی مہم کا آغاز کیا وہیں مقبوضہ کشمیر میں بھی سرکاری سرپرستی میں اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ ایک طرف بھارتی فورسز منظم انداز میں کشمیری نوجوانوں کا قتل عام کر رہی ہے تو دوسری طر ف کشمیر کے ثقافتی ورثہ کو ختم کرنے کے لیے طرح طرح کے اقدامات کیے جاتے ہیں جن میں ذیادہ تر وشواہندوپریشد کے کارکنان حصہ لیتے ہیں ۔ بھارتی فوج کے تسلط اور انتہا پسند ہندووں کی کارروائیوں کی وجہ سے کشمیر کی ثقافت اور معیشت زبوں حالی کا شکار ہے ۔کشمیر کا خطہ جہاں قدرتی حسن سے مالا مال ہے وہیں ثقافتی مقامات بھی دنیا کے لیے توجہ کا مرکز ہو سکتے ہیں لیکن بھارتی قبضہ کی وجہ سے کشمیر کا اقتصادی و سماجی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہو چکا ہے ۔ کشمیر ی سرزمین جہاں صوفیاء کرام کی آمد کی بدولت امن اور محبت کا مرکز تھا اب بھارتی دہشت گردی کے باعث وہیں آزادی اور امن کے لیے طویل جدوجہد کا مرکز بن چکا ہے ۔ کشمیری مسلمانوں جہاں امن ، رواداری ، محبت اور ایثار کی تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں وہیں ان میں ظلم کے خلاف کھڑے ہونا ، غلامی کو ترجیح دینے کی بجائے حریت کے لیے لڑنا بھی ان کی تاریخ کا حصہ ہے ۔ امن ، محبت اور پیار کی سرزمین کو بھارتی جبر ، ظلم اور ہٹ دھرمی نے جدوجہد کی جنگ میں تبدیل کر دیا ہے ۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ حق حریت کے لیے سیسہ پلائی دیوار بننے والے کشمیریوں نے اس جبر اور ظلم کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے ۔ بھارتی سرکار اسلامی ثقافت اور ورثہ کو زوال پذیر کرنے میں جو کوششیں کر چکی ہیں اس کا ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا ۔ اگرچہ بھارتیوں کو نشانہ صرف اسلامی مراکز اور ثقافت ہے تاہم کشمیر کی سرزمین پر ہندو اور بدھ مت کے حوالہ سے بھی بہت اہم ہے۔ ثقافتی ورثوں کا تحفظ بھی انسانی حقوق کے تحفظ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو نہ صرف عالمی اداروں کو اس جانب متوجہ کرنے کے لیے بڑے پیمانہ پر مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے بلکہ مقامی سطح پر اس کی آگاہی کے لیے منظم انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔  

مزیدخبریں