متناسب نمائندگی… حقیقی تبدیلی کا راستہ !! 

وزیراعظم عمران خان تین سال بعد معلوم ہوا کہ اصل مسئلہ "انتخابی نظام" ہے جو ہمیشہ اہل قیادت کی راہ میں رکاوٹ بنتا آیا ہے۔ چلیئے  "دیر آید درست آید " لیکن اس تاریخی کام کے لئے بھی ان کے ہاتھ صرف  وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی تیارہ کردہ  وہ مشین لگی جسے عرف عام میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین (  EVM)  کہتے ہیں۔ 25سال قبل جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی تو اسکا نظریہ "تبدیلی "قرار پایا ،17 سال بعد پہلے ایک صوبے اور پھر 22 سال بعد ایک صوبے کے سوا پوری حکومت مل گئی،لیکن آج تقریبا ساڑھے تین سال بعد بھی "حقیقی تبدیلی " کے خدوخال واضح نہیں ہوسکے ۔ اس میں شک نہیں کہ 70 سال کے بگڑے اور پٹڑی سے اترے "معاملات"کو سنبھالنے اور سدھارنے کے لئے وقت درکار ہے لیکن جس جماعت کا منشور ہی "تبدیلی " تھا  اسے حکومت میں آنے سے قبل ہی نہ صرف مسائل کا ادراک ہونا  چاہے تھا بلکہ  قابل عمل فارمولہ اور ماہر ٹیم بھی تیار ہونی چاہے تھی۔بعض کا خیال ہے انتخابی اصلاحات کے لئے آواز اٹھانے کا صحیح وقت 2013ء الیکشن سے پہلے تھا ،کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اس ملک میں حکومت کے برعکس اپوزیشن ذیادہ طاقت رکھتی ہے ،بعض جماعتیں  احتجاج اور دھرنوں کے  ذریعے پارلیمنٹ ،حکومت  بلکہ پوری ریاست کو گھٹنوں پر لے آتی ہیں ،پریشر گروپس سٹریٹ پاور کے ذریعے اپنی مرضی کے کئی قوانین بنوا لیتے ہیں اور کئی بنے ہوئے قوانین کو ختم بھی کرا لیتے ہیں ،حال ہی میں تحریک لبیک کے سامنے حکومت ہی نہیں پوری ریاست چند ہی دن میں اپنے  بیانئے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئی ۔ عمران خان کو حکومت میں ہوتے ہوئے انتخابی اصلاحات کے لئے جتنے پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں ،اس سے بہتر تھا کہ وہ 2013 میں انتخابی اصلاحات کے لئے اسلام آباد میں دیئے گئے پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے میں شامل ہوجاتے! تاہم کارکنوں کے دبائو کے باوجود  وہ شریک نہیں ہوئے  اور وقت  ریت کی طرح مٹھی سے سرک گیا۔ اب انہیں تین سال بعد یہ خیال آیا ہے کہ اگر انتخابی نظام کی اصلاح نہ کی گئی تو "چور لٹیرے" دوبارہ اقتدار پر برجمان ہوسکتے ہیں  اور "تبدیلی" کو بھی ریورس گیر لگ سکتاہے ۔ 
اسی خدشے نے انہیں اگلے انتخابات الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرانے کا راستہ دکھایا اور انھوں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے "جیسے تیسے" اس حوالے سے بل بھی  منظور کرا لیا  لیکن اب اصل  چیلنج اس پر عمل درآمد کا ہے ،  متحدہ اپوزیشن کی جانب سے مخالفت اپنی جگہ لیکن خود الیکشن کمیشن بھی اس مشین کے اگلے الیکشن میں استعمال کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے ۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن   کا کہنا ہے کہ  عام انتخابات میں اس مشین کے استعمال سے قبل تین،چار پائلٹ پراجیکٹس کرناضروری ہیں ،یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ دوردراز علاقوں جہاں بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں وہاں اس مشین کا استعمال کیسے ممکن ہوگا؟  اپوزیشن مشترکہ اجلاس میں منظور کرائے گئے قوانین کے خلاف عدالت سے رجوع کا عندیہ دے چکی ہے ، ای وی ایم مشین کے حوالے سے اگر سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن نے ہاتھ کھڑے کردیئے تو حکومت کیا کرے گی؟ معروف قانون دان اعتزاز احسن  نے تو کہہ بھی دیا کہ سپریم کورٹ 2023ء الیکشن میں ای وی ایم مشین کے استعمال کو ناقابل عمل قرار دے سکتی ہے ۔ اس صورتحال میں سابق صدر آصف علی زرداری کا تبصرہ برمحل لگتا ہے کہ حکومت اس "بیج" پر جتنی محنت کر رہی ہے اسکا پھل کوئی اور ہی  کھائے گا!!بہتر ہوتا کہ اس مشین کا استعمال مرحلہ وار کیاجاتا ، گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران سب سے ذیادہ ضمنی انتخابات اسی حکومت میں  ہوئے ہیں ، یہ مشین ان میں آزمائی جاسکتی تھی، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی اسکا جزوی استعمال کرکے ٹیسٹ کیاجاسکتا تھا ،اس صورت میں ہوسکتا ہے اپوزیشن کو بھی اس پر ذیادہ اعتراض کرنے کا موقع نہ ملتا ۔ اب اگلے عام انتخابات محض ڈیڑھ برس کی دوری پر ہیں ،بادی النظر میں اس مشین کا ان  انتخابات میں عملی استعمال ممکن نظر نہیں آرہا ۔ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ابتدائی طور پر الیکٹرونک ووٹنگ کا تجربہ سمندر پارپاکستانیوں کے لئے کر لیا جائے  اور بعد ازاں مرحلہ وار اسے عام انتخابات تک لے جایاجاسکتاہے۔ 
اس وقت دنیا کے تقریبا آدھے ممالک میں کسی نہ کسی صورت جمہوریت موجود ہے تاہم ان میں صرف 8 ممالک ہی ایسے ہیں جہاں انتخابات میں الیکٹرونک ووٹنگ کا استعمال کیا جارہا ہے ، جب کہ  جرمنی ،آئرلینڈ ،ہالینڈ اور ناروے سمیت 9 ممالک ایسے ہیں جنھوں نے  انتخابات میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا استعمال کرنے کے بعد ترک کردیا ۔ ہمارے پڑوسی ملک بھار ت نے ای وی ایم کا استعمال 1998 میں مرحلہ وار شروع کیا تاہم اس کے باوجود  وہاں دھاندلی کے الزامات ختم نہیں ہوسکے ،بھارت کی موجودہ اپوزیشن جماعتیں یہاں تک کہتی ہیں کہ جہاں "بی جے پی" مشکل میں ہو ،ای وی ایم مشین اسے بچانے آجاتی ہے !  
سوچنے کی بات یہ بھی  ہے  کہ محض ایک الیکٹرونک مشین ،انتخابی نظام کی خرابیاں کیسے دور کرے گی ؟ اس مشین کا استعمال تو محض ایک دن "الیکشن ڈے " پر ہوگا ،ہوسکتا ہے اس کے ذریعے بیلٹ پیپرز پر جعلی ٹھپوں ،  یا پھر "دھند" کے باعث بیلٹ پیپرز  کے بھرے بیگز کی گمشدگی جیسے واقعات سے چھٹکارا مل جائے تاہم انتخابی نظام سے دھن ،دھونس اور دھاندلی کے باقی لوازمات کیسے نکالے جائیں گے؟  کیا اس مشین کے ذریعے انتخابی نظام سے برادری ازم ،  نسلی ،گروہی بیا لسانی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کا رجحان ختم ہوجائے گا؟ کیا  یہ مشین الیکشن مہم میں  امیدواروں کی جانب سے کروڑوں روپے کے اخراجات روک سکے گی ؟ کیا اس مشین کے ذریعے ایک عام آدمی آزادانہ حق رائے دہی  کا استعمال کرسکے گا؟ کیا اس مشین کی آمد کے بعد جاگیرداروں ،وڈیروں اور سرمایہ داروں کے علاوہ ایک عام پڑھا لکھا شہری بھی  الیکشن لڑسکے گا اور پارلیمنٹ کا  رکن بن سکے گا؟ پاکستان کا انتخابی نظام حلقہ بندیوں کے ذریعے الیکٹیبلز یا پھر جیتنے والے گھوڑوں  (Winning Horses) کا مرہون منت ہے ،یہ مشین کیسے ان کے کردار کو کم کرکے صاف شفاف انتخابات کا راستہ ہموار کرسکے گی ؟  17نومبر کے مشترکہ اجلاس میں "انتخابی اصلاحات " کے حوالے سے مجوزہ ایک بل موخر کردیاگیا تھا تاہم اس میں بھی انتخابی نظام کو دھن ،دھونس اور دھاندلی سے پاک کرنے کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ اقدامات موجود نہیں ہیں  تو پھر ایک ای وی ایم مشین اس کرپٹ انتخابی نظام جس میں چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے ،اسے کیسے پاک کر سکے گی ۔ صرف ایک صورت ایسی ہے جس میں اس مشین کا کچھ فائدہ ہوسکتا ہے ،وہ یہ کہ ملک میں متناسب نمائندگی کا نظام رائج کیاجائے جس میں حلقہ بندیاں نہیں ہوتی ،پورا ملک ایک حلقہ ہوتا ہے اور لوگ امیدواروں کی بجائے اپنی پسند کی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں ،یہ ووٹ ملک میں کہیں سے بھی دیا جاسکتا ہے ،جو جماعت  کل ووٹوں کا جتنے فیصد لیتی ہے ،اسی تناسب سے اسے پارلیمنٹ میں نمائندگی مل جاتی ہے ۔ موجودہ انتخابی نظام کا حال یہ ہے کہ حالیہ کشمیر الیکشن میں 6لاکھ ووٹ لینے والی پی ٹی آئی کو 26 اور پانچ لاکھ ووٹ لینے والی مسلم لیگ ن کو صرف 6 سیٹیں ملی ہیں ،اسی طرح عام انتخابات 2018 میں تحریک لبیک نے 23لاکھ ووٹ لئے اور پورے ملک میں تیسرے نمبر پر رہی لیکن قومی اسمبلی میں اس کی ایک بھی نشت نہیں ۔ اس لئے  وزیراعظم کو چاہے کہ  صرف مشینوں پر تکیہ کرنے کی بجائے انتخابی نظام کی حقیقی اصلاح کا بیڑہ اٹھائیں ،ملک میں متناسب نمائندگی کا نظام لے کر آئیں جو اس وقت 80 سے زائد ممالک میں رائج ہے۔ یورپ کے 28میں سے 21 ممالک میں اسی نظام کے تحت الیکشن ہوتے ہیں ۔ یہ نظام آسٹریا، ہنگری، سوئٹزرلینڈ، شمالی یورپ، بلجیئم، ہالینڈ، ڈنمارک، ناروے، سویڈن، جرمنی، فرانس، ترکی اور سری لنکابھی شامل ہیں۔ ہرملک نے اپنے مخصوص حالات کو دیکھتے ہوئے، ضرورت کے مطابق اس نظام میں تبدیلیاں کی ہوئی ہیں۔ مقصد اس نظام کو زیادہ سے زیادہ جمہوری ، صاف وشفاف بناناہوتاہے۔ماضی کے تمام تجربات کو دیکھتے ہوئے یہ نظام پاکستان میں حقیقی تبدیلی کا دروازہ کھول سکتا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن