"Toronto Punjabi Conference!"
معزز قارئین! اگست 2011ء میں کینیڈا کے شہر "Toronto" میں وہاں کے بعض سِکھ دانشوروں نے ’’ عالمی پنجابی کانفرنس‘‘ کا ڈھونگ رچایا ۔ جس میں پاک پنجاب کے چند شاعر ، ادیب ، صحافی اور دانشور بھی شریک تھے ۔ کانفرنس میں ’’ پنجابی زبان کا مشترکہ جھنڈا لہرایا گیا ‘‘اور یہ قرار داد بھی منظور کی گئی کہ ’’پاکستان اور بھارت کے دانشوروں کا ایک مشترکہ بورڈ بنایا جائے جو اتفاق رائے سے پنجابی زبان میں سے عربی ، فارسی ، اردو ، ہندی اور سنسکرت کے الفاظ نکال دے !‘‘۔
اِس پر مَیں نے ستمبر 2011ء کے اپنے اخباری سائز "Four Colour" پنجابی جریدہ ’’ چانن ‘‘ لاہور میں لکھا کہ ’’ پنجابی کے پہلے صوفی شاعر بابا فرید شکر گنج ؒاور دوسرے صوفی شاعروں نے (پنجابی میں )عربی اور فارسی کے الفاظ استعمال کئے اِس طرح متحدہ پنجاب میں پنجابی زبان مقبول ہُوئی!‘‘۔ سِکھوں کے نویں گُرو، گُرو تیغ بہاؔدر جی کے نام سے الفاظ ’’ تییغ‘‘ اور ’’ بہادر‘‘ بھی فارسی زبان کے ہیں ۔ ’’ تیغ ‘‘ کے معنی ہیں ’’ تلوار ‘‘ اور ’’ بہادر ‘‘ کے معنی ہیں ’’ شجاع اور سُورما ‘‘ اگرآپ گُرو جی کے نام سے فارسی الفاظ نکال دیں تو کیا اُن کی بے حرمتی نہیں ہوگی؟‘‘۔
’’ … وکھری پاک پنجاب دِی بولی !‘‘
معزز قارئین !۔ پاک پنجاب کے مسلمانوں اور بھارتی پنجاب کے سِکھوں میں ’’ سانجھ ‘‘ ( دوستی / تعلق داری ) قائم کرنے والے پاک پنجاب کے شاعروں ، ادیبوں ، دانشوروں اور صحافیوں کی غیرت کو جگانے کے لئے مَیں نے ایک نظم بھی لکھی تھی ، جس کے چند شعر یوں ہیں …
وکھرّی، پاک پنجاب دِی بولی،
وکھرّی ’’سِکھّی بولی‘‘!
اِک مِک، نئیں کر سکدا،
کوئی گولا نہ، کوئی گولی!
وکھرّی، پاک پنجاب دِی بولی،
وکھرّی ’’سِکھّی بولی‘‘!
جیہڑے، سکھّاں، مُسلماناں نُوں،
کہندے ’’قوم پنجابی‘‘
عقلوں پَیدل، کُوڑ مغزنیں،
سوچ، اوہناں دِی، بلولی!
جیکر، پنجابی بولی دی، سانجھ،
سِکھّاں نال، ہوندی!
سن سنتالی وِچّ، نہ کھیڈ دے ،
ساڈے لہو نال، ہولی!
کینیڈا امریکہ یُوکے،
پَیلاں پاندی جاندی!
’’پنجابی جھنڈا‘‘ لہراندی،
مَنگتیاں دِی، ٹولی!
کردے، جُمعہ بازاراں وِچّ، پنجابی کانفرنساں!
موڈھیاں اُتّے، چُکّی پھر دے،
لوڑ وَندی دی، ڈولی!
سِکھّ یاتری، پنجہ صاحب ،
ننکانہ، جَد آئوندے!
اوہناں توں ، دانے ، منگ کے بَھر دے اپنی اپنی، بھڑولی!
پشتو ، سِندھی، بلوچی، بولیاں نال ،
ایہہ، وَیر کماون!
اردو ، فارسی، نُوں، پھٹّ لاون،
کچھّ وِچّ، رکھدے کرولی!
اپنے باغ، بغیچیاں دِیاں،
خوشبواں نُوں، چھڈّ کے!
چکّڑ وِچّ، یسار یسارن،
جِیویں بھیڈ، جھنڈولی!
’’نعرہ ٔ جناب مجید نظامی ؒ!‘‘
مَیں نے نومبر 2011ء کے ’’ چانن‘‘ میں ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان ‘‘ جنابِ مجید نظامیؒ صاحب کا انٹرویو شائع کِیا۔ پنجابی زبان میں جنابِ مجید نظامیؒ کا کسی جریدے کو پہلا اور آخری انٹرویو تھا ۔ میرے ایک سوال کے جواب میں جناب مجید نظامیؒ نے فرمایا کہ ’’ جے متحدہ پنجاب چ زبان دی سانجھ ہوندی تاں 1947ء چ پنجابی بولن آلے سِکھ ، مسلمان پنجابیاں نُوں شہید کیوں کردے؟۔ سانوں پنجابی دے صوفی شاعراں دا کلام پڑھنا تے سمجھنا چاہیدا اے ۔ پنجابی دِی سرحدی لکیر مستقل اے۔ جیہڑے پاکستانی پنجابی ، ایس لکیر نُوں مٹاون دِی کوشش کر رہے نیں اور ایتھوں ( پاکستان توں) دفع ہو جان‘‘۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ’’ انگریزی زبان "Lingua Franca" یعنی مختلف زباناں بولن والیاں چ رابطے دِی زبان تے مشترکہ بولی بن گئی اے ۔ جے اسِیں پنجابی تِیکر ای رہندے تاں پاکستان دا ایٹمی طاقت بننا مشکل ہوندا!‘‘۔
’’ مسلم /سِکھ /ایک قوم ! ‘‘
معزز قارئین !۔ 8 جون 2017ء کو سِکھوں کے پانچویں گُرو ، گُرو ارجن دیو جی کی اور 28 جون کو متحدہ پنجاب کے سِکھ راجا رنجیت سنگھ کی برسی کے موقع پر بھارت سے بہت سے سِکھ یاتری پاکستا ن آئے ۔ میاں نواز شریف وزیراعظم تھے اور اُن کے ’’ بندۂ خاص ‘‘ چیئرمین متروکہ وقف املاک بورڈ صدیق اُلفاروق نے 30 جون کی شب 10 بجے’’ دُنیا نیوز ‘‘ کے چینل ’’ لاہور نیوز ‘‘ پر اینکر پرسن ڈاکٹر محمد علی حمزہ سے انٹرویو میں کہا کہ ’’ قطع نظر سرحدوں کے ‘‘ ہم اور سِکھ ایک قوم ہیں ‘‘ ۔ اِس پر 2 جولائی 2017ء کو میر ے کالم کا عنوان تھا ’’ مُسلم سِکھّ ۔ ایک قوم ‘‘ ۔ نظریۂ جہالت!‘‘۔
مَیں نے لکھا کہ ’’ عالمی پنجابی کانفرنس ‘‘ کی آڑ میں لاہور پاکستان کے کئی شہروں میں آمد ہ سِکھ شاعروں ، ادیبوں ، صحافیوں اور دانشوروں سے بہنوئیوں اور دامادوں کا سا سلوک کِیا جاتا ہے ۔ کیا ’’ مسلمانوں اور سِکھوں کو ایک قوم ‘‘ سمجھنے والا مسلمان کسی بھی سِکھ یاتری کے ساتھ اپنی بہن یا بیٹی کی شادی کرسکتا ہے ؟‘‘۔ صدیق اُلفاروق میرے مخاطب نہیں ہیں ۔ میرے مخاطب تو پاک پنجاب کے وہ غیرت مند پنجابی ہیں ، جو ابھی تک نہیں بھولے کہ 1947ء میں سِکھوں نے دس لاکھ مسلمانوں کو شہید کِیا اور55 ہزار عورتوں کی آبرو ریزی کی تھی ؟ ‘‘ ۔
’’ سِکھ یاتری ! ‘‘
معزز قارئین ! ہندوئوں سے متعلق ضرب اُلمِثل ہے کہ ’’ بغل میں چھری اور مُنہ میں رام رام ‘‘ ۔ پاکستان میں سِکھ یاتریوں کی آمد پر سرکاری طور پر اُن کی مہمان نوازی کرنا چاہیں تو کریں لیکن اُن پر کڑی نظر رکھیں اور یہ جانچ پڑتال کرلیں کہ کسی سِکھ یاتری نے اپنی بغل میں کوئی ’’ داتری ‘‘ ( دارانتی ) تو نہیں چھپا رکھّی ؟۔ ’’ شاعرِ سیاست ‘‘ نے اپنے ایک سیاسی ماہِیا ‘‘ میں کہا کہ …
جَمّ ،جَمّ سِکھ یاتری، ہووے!
ایویں تُوں ، وسا ہ نہ کرِیں!
کِتے کچھّ وِچّ، داتری ہووے!
…O…
معزز قارئین !۔ تبرک کے طور پر نامور شاعر ، ادیب تے صحافی سعید آسیؔ ہوراں دِی کتاب …
’’ سوچ سمندر ‘‘ وِچّوں اِکّ موتی ! ‘‘
…O…
’’دِل دِی جھوک، وساندا پھرِناں!
اَپنا آپ، لُکاندا پھرِناں!
…O…
تُوں اِی تُوں دا، نعرہ لا کے!
تھاں تھاں جَلیّاں ،پَاندا پھرِناں!
…O…
اَیویں سَجنو پاگل پَن وِچہ!
لُوکاں نُوں سمجھاندا پھرِناں!
…O…
شالا ہر کوئی، سَجّن تِھیوے!
ایہہ دستّور ،بنا ندا پھرِناں!
…O…
میرا آسیؔ، کِیہ پُچھدے او!
دُنیا نُوں، ٹھکرا ندا پھرِناں!
(ختم شد )
19-11-2021