جمہوریت سے ’’ دوستی‘‘ 

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جس طرح قانون سازی کی گئی یہ نہ صرف پارلیمنٹ کی بے توقیری ہے بلکہ جمہوریت سے انتقام قرار دیا جا سکتا ہے ۔ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری  اسپیکر قومی اسمبلی کو آئینی تقاضے یاد دلاتے رہے اسپیکر صاحب فیصلہ کر کے آئے تھے کہ ایسی کی تیسی آئینی تقاضا کی وہ وہ سب کچھ کر گذاریں گے جو آئینی تقاضاؤں اور پارلیمانی اصولوں کے بے شک بر عکس ہو ۔ شنید ہے ’’انہوں ‘‘ نے لاڈلے کی بھرپور مدد کی اور 2018 میں تڑی لگانے والی واردات دوبارہ دہرائی ،پنجاب اور کے پی کے میں ویسے ہی پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہاں پولیس ان کی ہے رہی بات ’’باپ ‘‘کی وہ تو ہیں ہی سرکس کے شیر وہ چھڑی کی زبان سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران  قائد حزب اختلاف میان شہباز شریف اور جے یو آئی کے مولانا اسد محمود نے بھی اسپیکر قومی اسمبلی کو ان کے فرائض یاد دلائے مگر اسپیکر صاحب پر کوئی اثر نہیں ہوا ، چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ووٹنگ کے حوالے آئینی میں  وضع کیئے گئے تقاضے بیان کیئے کہ مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کیلئے 222 ووٹ لینا ضروری ہیں اسپیکر نے آئین کے ماہر میان رضا ربانی کو موقع دینے کی بجائے آئین شکن آمر پرویز مشرف کے وکیل کی رائے کو حتمی سمجھ کر غیر منتخب شخص کی طرف سے پیش کیئے بل کو پاس کروانے کی ٹھان لی اور 
آئینی تقاضاؤں کو روندنے کی اپنی روایت برقرار رکھی ۔آئینی تقاضے کے مطابق 222 ارکین کی حمایت کو پس پشت ڈال کر گنتی کے عمل میں بھی خیانت کا مظاہرہ کیا گیا۔ سینیٹر تاج حیدر چلاتے رہے کہ گنتی میں ڈنڈی ماری گئی ہے مگر اسپیکر صاحب کو بلاخر سرخرو اپنے لیڈر کے سامنے ہونا تھا اس لیئے آئینی تقاضاؤں سے انحراف کرتے رہے ۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی آڑ میں پارلیمنٹ کو رسوا کیا گیا اور ایسی قانون سازی کی گئی جس نے  آئین کی روح کو ’’زخمی ‘‘کردیا ہے ، بنیادی سوال یہ ہے آخر سرکار  عوام سے بیلٹ پیپر کا حق کیوں چھین رہی ہے  ووٹ کی رازداری کو برقرار رکھنے کے خلاف کیوں ہے ؟ اس سوال کا واحد جواب یہ ہے الیکٹرانک ووٹنگ مشین الیکشن کمیشن نے اپنی نگرانی میں نہیں بنوائی ، یہ ووٹ چوری کرنے کا سائینسی طریقہ ہے ۔دنیا کے بڑے جمہوری ممالک جہاں انتخابات میں مداخلت جرم ہے وہاں یہ عمل ناقابل قبول ہے ، دنیا کے کسی جمہوری ملک میں الیکشن کمیشن پر انگلی بھی نہیں اٹھتی اسلیئے کہ وہان آئین سے انحراف جرم ہے ۔ دوسری اہم بات کلبھوشن یادو کے حوالے سے حکومتی بل کی ہے جس منظور کرانے کیلئے حکومتی زعماء بیقرار تھے کسی کو نہیں معلوم کہ بھارتی جاسوس کے بارے حکومتی گرمجوشی کا ماجرا کیا ہے؟ ہمارے پیارے پاکستان کو یہ بھی دن دیکھنے تھے کہ ایک کھلاڑی کو کھیلنے کیلئے ملک دیدیا گیا ۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں 17 نومبر کو ہونے والے مشترکہ اجلاس کو غیر سنجیدہ واقعے کے طور یاد رکھا جائے گا اور مثال دی جائے گی۔کوئی ایسا بھی اسپیکر آیا تھا جس نے آئین سے انحراف کرتے ہوئے پارلیمانی آداب کی دھجیاں بکھیر دی، اس واقعے کو جمہوریت سے انتقام کے طور یاد رکھا جائے گا ۔

ای پیپر دی نیشن