خان صاحب کی دیوالیہ شناسی

Nov 20, 2022

عبداللہ طارق سہیل


چودھری شجاعت نے بیان دیا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی جس کا کام ہے‘ اسی کو ساجھے۔ غالباً انہوں نے یہ بیان عمران خان کے اس اصرار پر دیا ہے کہ یہ کام مجھی کو ساجھے‘ اور کسی کو نہ ساجھے۔ ان کا مو¿قف یہ رہا ہے کہ میرے سب مخالف چور اور ڈاکو ہیں اور چوروں‘ ڈاکوﺅں کو آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ میں ہی واحد صادق و امین ہوں لہٰذا ہر لحاظ سے یہ کام مجھی کو ساجھے۔
بہرحال یہ مو¿قف ان کا چند دن پہلے تک تھا‘ اب جو بیانات ان کی طرف سے آرہے ہیں‘ ان سے لگتا ہے کہ وہ راضی برضا ہو گئے ہیں اور بات چوروں‘ ڈاکوﺅں پر چھوڑ دی ہے۔ سنا تو یہ بھی ہے کہ ان کے صدر عارف علوی نے جن پر انہیں کبھی بہت ناز اور اعتبار تھا‘ بھی انہیں یہی مشورہ دیا ہے کہ چور‘ ڈاکوﺅں کو ان کا کام کرنے دو اورخود صبر سے کام لو‘ لیکن کیا کیجئے‘ صبر کیلئے درکار جگر خان صاحب کہاں سے لائیں۔ تازہ بیان میں انہوں نے فرمایا ہے کہ قوم اب مزید ظلم برداشت نہیں کرے گی۔ ظلم سے کیا مراد ہے اور مزید کا پیمانہ کیا ہے۔ یہاں یہ واضح نہیں۔
................
خان صاحب نے مزید فرمایا کہ نوازشریف نئے آرمی چیف سے کہیں گے کہ وہ مجھے (یعنی خان صاحب کو نااہل کرے۔)
اس اندیشے میں ایک دلچسپ اگرچہ ناقابل یقین انکشاف چھپا ہوا ہے۔ یہ کہ سیاستدانوں کو نااہل کرنا آرمی چیف کا اختیار ہے۔ کیا واقعی؟۔ گمان یہ ہے کہ کوئی اخبارنویس ماضی قریب میں خان صاحب سے یہ سوال کرتا تو وہ اس کا جواب نفی میں دیتے اور سختی سے اس کی تردید کرتے اور تفصیل سے بتاتے کہ آرمی چیف کا ایسے کاموںسے کیا لینا دینا‘ یہ تو عدالتوں کا کام ہے اور ہماری عدالتیں آزاد ہیں‘ وہ میرٹ پر اہل یا نااہل کرتی ہیں جس طرح میرٹ پر مجھے صادق امین قرار دیا‘ اسی طرح نوازشریف کو میرٹ پر نااہل کیا۔ وہ اخبارنویس کو ڈانٹ بھی پلاتے کہ اس نے فوج کے بارے میں اس طرح کی بدظنی کیوں کی۔
لیکن یہ ماضی قریب کی بات تھی‘ اب تو ماجرا حال کا ہے اور حال کے احوال کا مت پوچھئے کہ اس میںمجنوں نظر آتی اور لیلیٰ نظر آتا ہے۔ خان صاحب جو بھی کہہ ڈالیں‘ کم ہے۔
................
ماضی میں خان صاحب کے لگ بھگ ایک ہزار بیانات موجود ہیں کہ .... معاف کیجئے‘ تعداد شاید زیادہ لکھ دی۔ کچھ کم کر لیجئے.... کہ فوج سیاسی امور میں غیرجانبدار ہے اور اسے غیرجانبدار ہی رہنا چاہئے۔ نیز یہ کہ میں اپنے امور حکومت چلانے میں مکمل آزاد اورخودمختار ہوں۔
لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ حکومت میں تھا تو اختیار ہی نہیں تھا اور فوج کا کیا کام کہ غیر جانبدار رہے نیوٹرل ہو جائے‘ اسے تو میرا ساتھ دینا چاہئے‘ مجھے پھر سے حکومت میں لانا چاہئے۔
حال کی زبوں حالی یہ بھی ہے کہ ان کی یہ اپیل بھی صدا بصحرا گئی‘ ہر اپیل کی طرح اور تو اور‘ ان کا لانگ مارچ بھی عوامی بے تعلقی کے صحرا میں گرد راہ بن کر رہ گیا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ صحرا میں بھی راستے ہوا کرتے ہیں جن کی پہچان بادیہ نشینوں کو ہوتی ہے‘ دوسروں کو نہیں۔ وہ راہ ڈھونڈنے کی کوشش میں خود گم ہو جایا کرتے ہیں۔
خان صاحب جب تک دوسروں کی رہنمائی اور آسرے کے ساتھ چلے‘ چلتے رہے۔ وہ رہنمائی رہی نہ آسرا تو یہی لگ رہا ہے کہ راہ گم کر بیٹھے ہیں۔ صرف راستہ ہی نہیں‘ نشان منزل بھی۔
................
خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے ایک مہم کچھ روز سے بڑے زور کی چل رہی ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے والا ہے۔ ابتدا اس بیان سے ہوئی کہ دیوالیہ ہونے کے امکانات (یعنی اندیشے) 70 فیصد ہیں‘ اگلے روز یہ شرح 80 فیصد ہو گئی۔ حکومتی ذرائع اور دیگر ماہرین معیشت اس خدشے کو بے بنیاد قرار دے رہے ہیں۔ عام آدمی حیران ہے کہ کس کی بات مانے۔
میرا خیال ہے کہ عام آدمی کو عمران خان کی بات ماننی چاہئے۔ دلیل یہ ہے کہ پاکستان نے 75 برس کے دوران 24 سو ارب روپے قرضہ لیا۔ اکیلے خان صاحب نے محض ساڑھے تین برس میں 22 سو ارب کا قرضہ لیا۔ چنانچہ 75 برس والوں کا علم معیشت ایک طرف‘ اکیلے خان صاحب کا علم ”مائی شت“ ایک طرف۔ خان صاحب سے بڑھ کر دیوالیہ شناس کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ انہی کی بات اعتبار کئے جانے کے قابل ہے۔
................
سندھ کے وزیر ”خوابیات“ منظور وسان نے خواب دیکھا ہے کہ عمران خان جو آج ہیں‘ ایک ہفتے کے بعد ویسے نہیں رہیں گے۔
یعنی ایک نیا عمران خان دیکھنے کو ملے گا۔ مطلب نیا پاکستان تو نہ بن سکا‘ نیا عمران ہی سہی۔
منظور وسان کے ماضی کے بہت سے خواب ”سچے“ ثابت ہو چکے ہیں۔ وہ سچے خواب دیکھنے کا گر یا عمل شیخ رشید کو بھی سکھا دیں۔ بے چارے نصف صدی سے خواب سناتے آرہے ہیں‘ کوئی ایک بھی سچا نہیں نکلا۔ شاید ایک وجہ یہ ہو کہ منظور وسان رات کو سوتے وقت خواب دیکھتے ہیں جبکہ شیخ صاحب دن کو سپنے دیکھتے ہیں جن کیلئے جاگتی آنکھوں کے خواب والی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے یا شاید اس کی وجہ نالہ لئی کی قربت ہو جس کی کیمیائی آب و ہوا خواب کو بدخواب میں بدل دیتی ہے۔ شیخ جی لال حویلی کو چھوڑ کر اپنے سینکڑوں ایکڑ والے فارم ہاﺅس کو اپنی خواب گاہ بنائیں‘ الف لیلوی خواب آیا کریں گے۔ شیخ جی نے جو تازہ خواب بینی کی ہے‘ اس کے مطابق اگلے دس روز بہت اہم ہیں‘ لیکن یہ تو وہ بات ہے جس کی پیش گوئی کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ یہ تو ویسی ہی پیشن گوئی ہے جیسے کوئی کہے کہ دسمبر میں سردی پڑے گی۔
................
خبر ہے کہ روس والے یورپی ممالک سے رابطے کر رہے ہیں کہ اس کی یوکرائن کے ساتھ جنگ بندی کرائی جائے‘ لیکن یوکرائن والے مان نہیں رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سارے مقبوضہ علاقے واپس لیں گے‘ پھر جنگ بندی کا سوچیں گے۔ اگر روس کو جلدی ہے تو وہ یہ علاقے خود ہی خالی کردے اس وقت یوکرائن والے ”زور آور“ ہیں اورروس کی حالت پنجابی شاعری والے ”ماڑے“ جیسی ہو گئی ہے۔ ماڑے دا کہہ زور محمد‘ میاں محمد کے مشہور کلام کا ایک مصرعہ ہے۔
روس ”ماڑا“ہوتا ہے تو قصور اسی کا ہے۔ کسی اور نے اسے ماڑا نہیں کیا۔ روسی فوجیوں پر یوکرائنی افواج کے ”وحشیانہ مظالم“ کی ویڈیو خود روس جاری کر رہا ہے جنہیں دیکھ دیکھ کر روسی فوجی میدان چھوڑ کر مفرور ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے میدان جنگ میں اس کی حالت مزید پتلی ہوتی جا رہی ہے۔
پیوٹن کا روس‘ آخری ”زار“ کے روس سے ملتی جلتی حالت والا ملک بن گیا ہے۔ تب کمیونسٹ انقلاب آیا تھا‘ اب کون سا انقلاب آئے گا؟ شاید جمہوری انقلاب کا راستہ بن رہا ہے۔

مزیدخبریں