تحریکِ انصاف کا بیانیہ، سمت اور حقیقت!!!!!


پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کہتے ہیں کہ عمران خان عوام کو راولپنڈی پہنچنے کی کال دیں گے۔ فواد چوہدری کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر نے اس شاندار مہم کی نگرانی کی ہے آخری مرحلہ آ گیا ہے تیار رہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو بغیر اجازت پنڈی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے بھی انتظامات مکمل ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کا لانگ مارچ ایک سیاسی سرگرمی ضرور ہے یہ ایک الگ بحث ہے کہ کیا اس وقت ملک اس کس متحمل ہو سکتا ہے یا نہیں، کیا یہ لانگ مارچ ملک کے مفاد میں ہے یا نہیں پھر بھی سیاسی جماعتوں کو ایسی سرگرمیوں کی ہر وقت مکمل اجازت اور آزادی رہتی ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی ملکی مفاد سے زیادہ سیاسی مفادات کو اہمیت دیتی ہیں۔ یہی حال اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت کا ہے۔ راولپنڈی کا رخ کرنے کے فیصلے نے پی ٹی آئی اعلیٰ قیادت کی سوچ کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر لانگ مارچ کے لیے راولپنڈی کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے۔ 
عمومی طور پر لانگ مارچ اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں کیونکہ وہ وفاقی دارالحکومت ہے جب کہ راولپنڈی کی شہرت کچھ اور ہے۔ سیاسی جماعتیں برسر اقتدار جماعت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے اسلام آباد کا رخ کرتی ہیں، مظاہرے اور دھرنے ہوتے ہیں، حکومت کے سامنے مطالبات رکھے جاتے ہیں، سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، ٹائر جلائے جاتے ہیں، نعرے بازی ہوتی ہے لیکن یہ سب کچھ اسلام آباد میں ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے راولپنڈی کو ہدف بنانا سوالیہ نشان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی افواجِ پاکستان کے خلاف میدان میں ہے۔ اب لوگوں کو سمجھ آنا چاہیے کہ حقیقی آزادی کا نعرہ کیوں لگایا گیا۔ عمران خان اپنے چاہنے والوں کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاید پاکستان غلام ملک ہے۔ اس بیانیے سے وہ اپنے حمایتیوں کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان سے پہلے جتنے بھی حکمران آئے ہیں انہوں نے آزادی یا خودمختاری پر ہمیشہ سمجھوتہ کیا ہے۔ یہ عمران خان کا خیال ضرور ہو سکتا ہے لیکن حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پاکستان میں حکمرانوں نے ہمیشہ قومی سلامتی کے معاملے کو ترجیح دی ہے اور کبھی قومی سلامتی کے معاملے پر سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ ہر مرتبہ قومی مفاد کو ترجیح ہے۔ پاکستان کے غلام ملک ہونے کا بیانیہ سراسر جھوٹ اور لوگوں کو گمراہ کرنے کا نہایت غلط بیانیہ ہے۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا ملک ہے جو ایٹمی طاقت، صلاحیت رکھتا ہو اور وہ غلام ہو۔ اگر پاکستان کسی کی غلامی کر رہا ہوتا تو پاکستان کبھی ایٹمی طاقت نہ ہوتا۔ اگر پاکستان امریکہ کے زیر اثر ہوتا تو چین کے ساتھ نہایت مضبوط اور دوستانہ تعلقات کبھی نہ ہوتے، کیا پاکستان پر چین سے علیحدہ ہونے، راستے جدا کرنے کے لیے مختلف وقتوں میں دباو¿ نہیں ڈالا گیا، لیکن کیا پاکستان نے چین کے ساتھ تعلقات ختم کیے، بالکل نہیں بلکہ سی چیک کے ذریعے چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ اگر پاکستان بیرونی دباو¿ لیتا تو سی پیک کا آغاز نہ ہوتا۔ اسی طرح ایٹمی دھماکوں کے وقت پاکستان نے ہر طرح کے دباو¿ کا سامنا کیا، دنیا کے طاقتور اور بڑے ممالک کو انکار کیا اور قومی سلامتی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہوئے ایٹمی دھماکے کیے اور دنیا کو بتایا کہ اگر پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں پوری قوت سے جواب دینے کا سامان موجود ہے۔ اسی طرح دفاعی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے مختلف منصوبوں پر کام کرتے ہوئے پاکستان کو بیرونی دباو¿ سامنا کرنا پڑا لیکن ہر طرح کے دباو¿ کا سامنا کیا اور سب کو انکار کرتے ہوئے دفاعی صلاحیت پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہ چند مثالیں ہیں اس کے علاوہ بہت سی مثالیں ہیں جہاں پاکستان نے قومی سلامتی کو ترجیح دیتے ہوئے آزادی اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ سرحدوں پر ہمارے جوان ملکی دفاع کی خاطر قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں کیا وہ یہ قربانی ہماری آزادی کو قائم رکھنے کے لیے نہیں دے رہے۔ کیا دنیا کی تاریخ میں کسی غلام ملک کے شہری جانیں قربان کرتے ہیں۔ ان حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف غلامی کے بیانیے کو صرف عوامی جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال کرتی ہے کیونکہ اگر کسی آزاد قوم سے کہا جائے کہ وہ غلام ہے تو یقیناً اس قوم کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آئے گا۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت نے اس حوالے سے عوام تک غلط پیغام پہنچایا ہے۔ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اس حوالے سے ہونے والی ہر بات ہزاروں شہداءکے خون کی بےحرمتی ہے۔ اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ حقیقی آزادی والے نعرے اور بیانیے پر لوگوں کی ہمدردیاں لے کر جذبات کو ابھارنا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کرنا کہ کوئی سازش ہوئی یا کسی کے کہنے پر حکومت سے نکال دیا گیا ان سب چیزوں سے تو پی ٹی آئی خود ہی پیچھے ہٹ رہی ہے اس کے بعد کہنے کو کیا رہ جاتا ہے۔ صرف سیاسی شکست کو تسلیم نہ کرنا، اپنی بات پر بغیر سوچے سمجھے اڑے رہنا اور جب وقت گذر جائے پھر غلطی تسلیم کرنا کوئی مناسب عمل ہرگز نہیں ہے۔ اب پنڈی جانے کا شوق ہے وہ بھی پورا کر لیں بہت پہلے لکھا تھا جب فیصلہ کر لیا جائے کہ کیا کرنا ہے تو پھر فیصلے پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ اب فیصلے پر عملدرآمد ہو رہا ہے۔ آپ نے ٹرین مس کی کسی کو الزام دینے کے بجائے اپنی اصلاح پر توجہ دیں۔ سیاست سیکھیں، تحمل مزاجی پیدا کریں، خیالات میں لچک اور وسعت لائیں تاکہ ملک و قوم کی زیادہ بہتر انداز میں خدمت کر سکیں۔ اگر کسی نے عثمان بزدار کو ہٹانے کے لیے کہا اور آپ نے ضد بنا لی تو نقصان کس کا ہوا، کیا ملک کے سب سے بڑے صوبے کو عثمان بزدار کو لگائے رکھنے سے فائدہ ہوا اور آخر کار آپکو وہاں کسی اور کو وزیر اعلیٰ لگانا ہی پڑا یہی کام مشاورت سے ہوتا تو یقیناً عوام کا فائدہ ہوتا لیکن عوامی فائدے کے بجائے ضد کو اہمیت دی گئی۔

ای پیپر دی نیشن