کسی بھی معاشرے کی معاشی ،سیاسی اور معاشرتی حالت اس ملک کے معیار تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات پر منحصر ہوتی ہے کیونکہ صحت کے بغیر صحت مند معاشرے کا تصور اور تعلیم کے بغیر ترقی و خوشحالی ممکن نہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ان شعبوں پر خاص توجہ دی جاتی ہے لیکن بد قسمتی کے ساتھ ہمارے ملک میں انھی شعبوں کو ہمیشہ سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم جہاں سے چلے تھے وہیںپر آج کھڑے ہیںپہلے قرضوںپر پل رہے تھے اور اب سرکاری اثاثے بیچنے کےلئے سر جوڑے بیٹھے ہیں تاکہ معیشت بہتر ہو جائے لیکن افرادی قوت استعمال میں لاکر بہتری بارے کوئی نہیں سوچتا کیونکہ پھر تعلیمی نظام کو بہتر کرنا پڑےگا جس سے عام آدمی میں شعور اجاگر ہوگاجو کہ نا اہلوں کی حکومت نہیں مانتایہی وجہ ہے کہ مذکورہ شعبوں میں مجرمانہ غفلت اور وقت ٹپاﺅ پالیسیوں کے سوا کچھ نہیںملتا بلکہ ہماری اشرافیہ اور افسر شاہی تو ملک میں موجود ہسپتالوں ،سکولوں اور جامعات کے قریب سے بھی نہیں گزرتے ۔اگر نزلہ و زکام بھی ہوجائے تو لندن و امریکہ پہنچ جاتے ہیں اور اولادیں بھی بیرون ملک پڑھاتے ہیں تاکہ وہ گوروں کی نسلی حکمرانی کے جراثیم لیکر اپنے پسماندہ ملک کے نسلی غلاموں پر حکمران بن سکیں اور سر اٹھانے کے قابل نہ رہیں ۔پ چھتر برس سے یہی تماشا چل رہا ہے اور عوام اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ان نسلی آقاﺅں کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کیلئے اپنی جانیں بھی دینے سے گریز نہیں کرتے جیسا کہ آجکل حقیقی آزادی کے نام پر عوام آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم قابل رحم کیوں ہے؟ سبھی جانتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے متعدد بار تبدیل ہونیوالی ناقص حکومتی پالیسیوں ، سیاسی مداخلتوں ،بجٹ کی غیر منصفانہ تقسیم ،سرکاری اداروں میںمن مرضی کی بھرتیوں اور مخصوص نصاب کی وجہ سے اپنا معیار برقرا ر رکھنے سے قاصر ہیں اور یہی سب کچھ شعبئہ صحت میں ہورہا ہے کہ بہترین مشینری کے باوجود ومناسب انتظامات اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ڈاکٹر نہ ہونے کیوجہ سے غریب افراد مہنگے ٹیسٹ کروانے اور پرائیویٹ ڈاکٹروں کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہیں۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں جنھیںسبھی جانتے ہیں مگر ایسی ڈھٹائی اور بے حسی ہے کہ کوئی ایکشن نہیں لیتا۔ مزید جنھیں ایسے حقیقی مسائل کو اجاگر کرنا چاہیے وہ بھی سیاسی ہتھیار بن چکے ہیں کہ کوئی چینل بھی لگا لیں صرف سیاسی خبروں ،اکھاڑ پچھاڑ ، فنکاروں کا بریک اپ ،شادی ،طلاق ،گھڑی چوری اوراہم تعیناتی کی خبروں کے سوا کچھ نہیں ملتا جبکہ انٹر پارٹ ون کے امتحان میں باسٹھ فیصد بچے فیل ہوگئے ہیں،یونیورسٹیاں ویسے ہی ایشیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں شمار نہیں ہوتیں اور اگر شعبہ صحت کی بات کی جائے تو پنجاب میں گندگی کے ڈھیر جگہ جگہ پڑے ہیں اورہر گھر میں ڈینگی بخار کا مریض بیماری سے لڑ رہا ہے لیکن ٹی وی پر صرف مرنے والوں اور فیل ہونے کی خبر ہی ملتی ہے ۔
مجھے کہنے دیجیے کہ عمران خان نے پنجاب کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے کہ پہلے عثمان بزدار کو مسلط کر دیا جو کٹھ پتلی وزیراعلی تھے بایں وجہ کارکردگی مشکوک ہی رہی اور کرونا جیسے المناک وبائی دنوں میں بھی کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہیں کروا سکے بلکہ خان صاحب نے ہمیشہ لاک ڈاﺅن کو بچاﺅ کا حل قرار دیا حالانکہ اراکین اسمبلی کو انھیں اپنے علاقوں میں صفائی اور اسپرے کے خاص انتظامات کرنے چاہیے تھا مگروہ کیسے کرتے کہ خان صاحب میاں شہباز شریف کو ”ڈینگی برادران “کہہ کر طنز کے نشتر تو چلاتے رہتے تھے مگر خود اٹھتی لاشوں پر بس خطاب فرما کر اپنا فرض پورا کرتے رہے اور اب قرعہ چوہدری پرویز الہی کے نام نکال دیا ہے جنھوں نے اپنی ساری توجہ اپنے علاقے کی طرف مبذول کر رکھی ہے۔ پورا پنجاب کچرا کنڈی بنا ہوا ہے کہ نہ صفائی ہوتی ہے اور نہ ہی اسپرے ٹیمیں کبھی کہیں نظرآتی ہیں جو کہ ڈینگی برادران کے دور میں ہفتے میں دو بار نظر آجاتی تھیں ۔۔ڈینگی مریضوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہا ہے مزید اموات کے اعددو شمار بھی بڑھ رہے ہیں اور ہسپتالوں کا رخ کرنے والے کیسے بچ سکتے ہیں کہ وہاں کی حالت زار بارے توٹی وی پر ڈاکومینٹریز دکھائی جا رہی ہیںکہ سروسز ہسپتال میں گندگی کے ڈھیر پڑے ہیں اور کاکروچ دیواروں اور بستروںپر چلتے ہیں لیکن کوئی ایکشن نہیں ہے جس کا نظارہ میں نے خود بھی کیا ہے ۔صفائی والے عملے کی کوتاہی اور نا اہلی کا رونا تو سبھی روتے ہیں لیکن بعض ڈاکٹروں کی مسیحائی بھی سوالیہ نشان ہے وہ تو ایسے فرعونی رویوں کے مالک ہیں جیسے سیاسی بازیگر کرسی پانے کے بعد عام آدمی سے اختیار کرتے ہیں۔
اگر خدمت گار اپنے فرائض اچھی طرح ادا نہیں کرتے تو اسکا صاف مطلب ہے کہ لیڈر شپ میں مسئلہ ہے اور ہمارا تو ہر شعبہ سوالیہ نشان بنا ہوا ہے کہ وہ مافیاز جو پہلے بے قابو تھے اب تو لگتا ہے ڈھٹ کر سب کر رہے ہیں کہ روٹی نان کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے اس کے علاوہ اشیائے خوردو نوش اور اشیائے ضروریہ تو ہر طبقے کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہیں ،یہی حال امن عامہ کا بنا ہوا ہے لیکن تجربہ کار کرسی بچانے میں مصروف ہیں ۔جو لوگ ریاستی رٹ قائم کروانے میں ناکام ہوچکے ہیں انھیں فارغ کیوں نہیں کیا جاتا اسپرے کرنا اور کروانا کس کی ذمہ داری تھا عوامی تنخواہوں پر پلنے والوں نے اگر عوام کیلئے کچھ نہیں کرنا تو ان پر پیسے ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
ہزاروں لاکھوں افراد نوکری کیلئے پریشان گھومتے ہیں ،ضروری شعبہ جات سے نااہلوں کو نکال کر ضرورت مندوں اور دیانتداروں کو بھرتی کریں کہ موجودہ بحرانوں کی وجہ اخلاص کا نہ ہونا ہے جن کیوجہ سے صفر کار کردگی کا لیبل جوکہ ہر آنے والے ایڈ منسٹریٹر کی پہچان بن چکا ہے اس سے بچا جا سکے کہ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا اور آپ سارے جس مستقبل کےلئے پریشان خوار ہو رہے ہیں ممکن ہے اس میں آپ موجود ہی نہ ہوں اس لئے عوام کےلئے کچھ کر جائیں کہ جنھوں نے کچھ نیا نہیں کیا ان کا پیچھا صدائیں کرتی ہیں کہ کرسیوں سے اترنا ہی تھا کیا ہی اچھا ہوتا کہ دلوں میں اترے ہوتے تودل سے کبھی نہ اترتے اور نہ ہی رسوائیاں مقدر ہوتیں۔۔