سیاست کی مارا ماری میں سیلاب زدگان کے معاملات اور ان کی امداد کی سرگرمیاں پس منظر میںپڑ گئی ہیں لیکن ایسا ہر جگہ نہیں ہوا۔ایک ایسے موقع پر جب آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان سے اخراجات کی وہ تفصیلات مانگی گئی ہیں کہ جن کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے آ ئی ایم ایف کو کہا گیا تھا کہ وہ قسطوں کی ادائیگی میں اور دوسرے معاملات میں پاکستان کے ساتھ نرمی کرے اور مذاکرات کے تعطل کو ختم کرے اور پاکستان کی وزارت خزانہ وہ تفصیلات جمع کر رہی ہے تو دوسرے متاثرہ صوبوں کی سرگرمیاں تو سامنے نہیں آئیں البتہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے 55 ہزار سے زائد سیلاب متاثرین کیلئے امدادی رقم کے اجراءکا آغاز کر دیا ہے۔ اسی پس منظر میں وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے سیلاب متاثرین میں امدادی رقوم تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی دفعہ بھی اللہ نے موقع دیا تھا، کام کئے لیکن دوسروں کی طرح ڈھول نہیں پیٹا۔ شہباز شریف نے سیلاب متاثرین کے پاس ، فوٹو وغیرہ کھینچوا ئیں اور بس ۔ ان کو پروٹوکول کا بہت شوق ہے ۔ بڑی ”برکت“ والے ہیں جس سے ہاتھ ملاتے ہیں وہ افسر چلا جاتا ہے ۔ انہوں نے وزیر اعظم سے گلہ بھی کیا کہ کیا فائدہ آپ کی حکومت کا اگر صوبے کی مدد نہیں کرنا یا کوئی اچھا افسر نہیں دینا۔ وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک طرف سیلاب زدگان کے حوالے سے کہا کہ 55 ہزار 400سیلاب متاثرین کو مجموعی طور پر 12 ارب 20 کروڑ روپے کی امداد دے رہے ہیں۔ سیلاب میں تباہ ہونے والے 47 ہزار 500 کچے گھر کے مالکان کو 2 لاکھ روپے اور 8 ہزار، پکے گھر مالکان کو 4 لاکھ روپے فی کس دے رہے ہیں۔ اخوت کے علاوہ دیگر دینی این جی اوز نے بھی سیلاب متاثرین کیلئے قابل قدر کام کیا۔ پاکستان آرمی، نیوی اور ائیرفورس نے متاثرین سیلاب کیلئے قابل قدر کام سرانجام دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے خود ڈی جی خان کے علاقوں میں جا کر صورتحال کا جائزہ لیا وہاں اپنی مختصر عرصے کی حکومت کی کارکردگی کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ 3 ماہ میں سال جتنا کام کرکے دکھا دیا جس سے عام آدمی کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو پہلے بھی مفت تعلیم اور کتابیں دیں، اب بھی گریجوایشن تک مفت تعلیم دے رہے ہیں۔ جنوبی پنجا ب کی طالبات کو پہلے سے تین گنا زیادہ وظیفہ دیں گے ۔ وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ پتہ نہیں کتنے دن ہیں، لیکن جتنے دن بھی رہیں گے عوام کی خدمت کرینگے یہ درست ہے کہ وطن عزیز اس وقت سیاسی مدو جذر کی صورتحال سے دو چار ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتاکہ اقتدارکی یہ میوزیکل چئیر کیا رنگ لائے گی لیکن اس عرصے میں وہ سرگرمیاں غنیمت ہیں جو اقتدار کے منظر نامے کو زیادہ زیادہ صحت مند خطوط کی طرف لے جا سکیں اس وقت وفاق میں بے نظیر پروگرام اور دوسری امداد سرکاری سکیموں میں گھپلوں کو سامنے لانے کی شہرت رکھنے والی ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی خدمات صوبہ پنجاب کے سپرد ہیں ان کا کہنا ہے کہ احساس پروگرام میں کرپشن روکنا سب سے بڑا چیلنج تھا۔
ماضی میں سوشل پروٹیکشن ڈیٹا سیاسی بنیادوں پر مرتب کیا جاتا تھا۔ ڈیٹا انٹری میں اقربا پروری اور سیاسی تعصب کا خاتمہ کر دیا۔ وزیر اعلی نے بھی انکی خدمات کو سراہا ہے۔ وزیر اعلی کےلئے ایک بڑا چیلنج صحت کا شعبہ ہے ان کا کہنا ہے کہ اس شعبہ پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے بڑے ہسپتالوں میں بریسٹ کینسر کے علاج کیلئے سینٹر آف ایکسی لینس قائم کئے جا رہے ہیں ۔ سرکاری ہسپتالوں میں بریسٹ کینسر سے بچاو¿ اور تشخیص کیلئے خصوصی کاو¿نٹرز قائم کئے جائینگے ۔ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے کہا کہ کسی بھی سٹیج پر کینسر تشخیص ہونے پر مریض کا مفت علاج ہوگا۔ پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا مریضوں کو بھی علاج کی بہترین سہولتیں فراہم کرینگے ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ نجی شعبے کے اشتراک سے 37ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز کو ٹریننگ دی جا رہی ہے ۔ خواتین میں کینسرکی تشخیص کیلئے لیڈی ہیلتھ ورکرز بھرپور کردار ادا کرسکتی ہیں۔ وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے روش کمپنی کو پنجاب میں پروڈکشن پلانٹ لگانے کی دعوت دی اور کہا کہ 10سال کیلئے ٹیکس فری زون قائداعظم بزنس پارک میں پلانٹ لگائیں۔ روش کمپنی پنجاب میں پروڈکشن شروع کرے ، ہر ممکن تعاون کرینگے ۔ وزیراعلیٰ نے بریسٹ کینسر کے مفت علاج کے حوالے سے پراجیکٹ کی منظوری بھی دی ہے ۔ صحت کے شعبہ کے حوالے سے وزیر اعلیٰ کے اعلانات بلاشبہ اچھے ہیں مگر ضرورت تو ان پر عمل درامد کی ہے کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ان بیوروکریٹس کی موجودگی میں وہ اپنے فیصلوں کے ثمرات سامنے لا سکیں گے جو ایک عرصے سے اپنی سیٹوں پر بیٹھے ہیں اور جن سے ڈاکٹرکمیونٹی خاص طور پر پرائمری اینڈ سیکنڈری ونگ جو تقریبا صوبے کے تمام پیرا فری ہسپتالوں کو کنٹرول کرتا ہے کی ڈاکٹر کمیونٹی ایک عرصے سے نالاں ہے۔اسی طرح وزیر اعلی نے لاہور میں ٹریفک کی روانی کےلئے بہت سے میگا پرجیکٹوں پر کام شرع کرایا ہے لیکن ان کو نہر لاہور کی کشاد گی کے ماضی کے منصوبے میں مغلپورہ سے رنگ روڈ تک بنائے گئے غلط یو ٹرنوں کی درستگی کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی جن کی وجہ سے روزانہ شہر کے اس حصے میں انگنت حادثات ہوتے ہی اور لاکھوں لوگوں کی طرف سے روزمرہ کی تکلیف کے باعث ایک مدت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ان بے تکے یو ٹرنوں کی بجائے ان کو ختم کر کے ماضی کے پلوں اور ان پلوں سے جڑی ہوئی آبادیوں کی ضرورت کے تحت نئے یو ٹرن بنائے جائیں ۔