میں نے پوچھا بصیرت اور نورانیت کیسے روح تک اتر کر اسے لطافت عطا کرتی ہے۔۔جواب ملا۔۔س±نو بصیرت کا نور اسکی نورانیت قدرت کے بہت بڑا رازوں میں سے ایک راز ہے۔
وہ چہروں کو دلوں کو ارواح کو کیسے نورانیت عطا فرماتا ہے یہ اسکی عطا اور کرم پر منحصر ہے اگر سمجھو سوچو تو۔ یہ نور انیت لطافت صداقت یونہی نہیں ملا کرتے اگر سمجھو تو بصیرت کی نور انیت ہر طرف بکھری ہے مگر اسے سمیٹنے کی طاقت تم میں نہیں۔۔۔۔ اللہ چاہتا ہے کہ انسان کی رگ رگ میں عبادات کی نور انیت بھر جائے اسی لئیے رب تعالی نے انسانوں کو و±ضو آذان نماز اور قرآن جیسے نورانیت میں لپٹے تحفے بخشے ہیں۔آذان کے الفاظ نورانیت کا منبع ہیں اسلئیے آذان کو خاموشی سے سننے اور اسکے الفاظ دہرانے کی تاکید کی گئی ہے تاکہ انسان زیادہ سے زیادہ نورانیت کو اپنے اندر سمو کر روح نورانیت و روحانیت سے توانا ہو سکے۔۔۔
وضو طہارت و پاکیزگی اور نور حاصل کرنے کا ایسا عمل ہے جسکے بنا اذان نماز اور قرآن کی نورانیت کو حاصل نہیں کیا جا سکتا جسم کے ظاہری ہر عضو کو وضو نورانیت عطا کرتا ہے اور پھر نماز ادا کرنے کے لئے جونہی مصلی پر کھڑا ہوتا ہے عبادت کے نورانی احاطے میں آ جاتا ہے یہاں سے نورانیت کو اپنے اندر اتارنے کا عمل شروع ہوتا ہے نماز کا ہر لفظ± اور ہر ر±کن سبحان اللہ سے لے کر سلام پھیرنے تک کے عمل میں جسم نورانیت کشید کرتا ہے اور روح اس نورانیت کو اپنے اندر جذب کرتی جاتی ہے۔اور لطافت سمیٹ کر توانا ہوتی رہتی ہے۔
قرآن مجید فرقانِ حمید نورانی کتا ب ہے کیونکہ اس میں اللہ انسانوں سے بات کرتے ہیں اور اللہ کی گفتگو کا نور قرآن کی آیتوں میں زیر زبر جذم پیش مد شد میں ہر حرف ہر لفظ میں نور ہی نور ہے۔۔ اسلئیے جب انسان وضو کے نور میں بھیگا ہوا قرآن کو ہاتھ میں پڑھنے اور سمجھنے کی نیت سے اٹھاتا ہے نور اسکے ہاتھوں میں سرایت ہونے لگتا ہے۔جب وہ پیار سے قرآن کو دیکھتا ہے تو اسکی بینائی میں نور گھلنا شروع ہوتا ہے آنکھ کا نور اور قرآن کا نور دونوں ایک دوسرے میں جذب ہوتے ہیں تو آنکھوں میں بینائی کی چمک بڑھ کر توانا ہو جاتی ہے۔ جب وہ قرآن کھول کر اپنی زبان سے تلاوت کرنا پڑھنا شروع کرتا ہے پہلے لفظ کے ادا کرتے ہی اسکی زبان قرآنی حرف کے نور سے نورانی ہونے لگتی ہے۔۔ اور جب قرآن کی تلاوت سنی جاتی ہے تو قرآنی آیات کا نور سماعتوں میں گھل کر اسے اتنی نورانیت بخشتا ہے کہ اسکی سماعتیں نورانی ہو جاتی ہیں۔۔اور یہ نورانیت رگوں میں تحلیل ہو کر دل سے روح تک کو سیراب کرتی ہے۔
لہو کی روانی اور گردش میں ذکر ربی کے نور کی لہریں سما جاتی ہیں اور تب صحیح معنوں میں ذکر کی حلاوت کے ساتھ فانی روح نورانی اور روحانی ہو جاتی ہے اپنی تمام تر لطافت کے ساتھ نزاکت کے ساتھ"
اور جب روح جسم سے نکلتی ہے تو اپنی تمام تر نورانیت اور روحانی لطافت سے منور ہوتی ہیں اور ایسی ارواح کے لئیے ہی ارشاد فرمایا گیا ہے
کہ اے مطمئن ارواح چلو اپنے رب کی بارگاہ میں واپس چلو۔۔ تب روح خوشی خوشی اپنے مرکز کی طرف لوٹ جاتی ہے۔۔۔
بہت نوازش ہو گی
Nov 20, 2022