شعر و نثر، ہر دو سطحوں پر اظہار کی نت نئی صورتیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ اسالیب کی رنگا رنگی خوب جلوہ گر ہوتی ہے۔ اس طرح، اگر کوئی تخلیق کار اپنا سِوا اسلوب وضع کر لے تو اس کی تحریرکو ایک مستقل شناخت حاصل ہو جاتی ہے۔ اسی نقطہ ء نظر سے اسلوبیاتی مطالعہ بھی کیا جاتا ہے اور لسانی تشکیلات کا موضوع بھی زیرِ بحث رہتا ہے۔ زبان سازی اور کہیں زبان شکنی کے تجربات بھی ہوئے لیکن معیار یہی ٹھہرا کہ زبان کے مروجہ اصول و ضوابط سے قطعاََ صرفِ نظر نہ کیا جائے۔ البتہ! جہاں گنجائش موجود ہو، وہاں لفظیات، تراکیب، استعارات و تشبیہات اور موضوعات کو عہد کے تقاضوں کے پیشِ نظر ڈھال لیا جائے۔ اس لیے کہ ہر دور کی لسانی ضرورتیں سِوا ہوتی ہیں۔ ہر زمانے کا اپنا تقاضا ہوتا ہے جس کے سبب اسلوبیاتی ولسانی عمل ایک مختلف انداز سے واقع ہوتا ہے۔ ادب، بہ طورِ خاص جدید غزل میں بھی ایسے تجربات کا ظہور ہوا ہے جسے ہم شعوری اور کسی حد تک لاشعوری بھی کہہ سکتے ہیں، جس کے باعث فکری و فنی اظہار کے لیے کہیں الفاظ کا ادغام ہوا، نت نئے مقامی و غیر مقامی الفاظ کا دخیل ہوا اور کہیں لفظ کو تازہ مفہوم کے ساتھ برتا گیا۔ اس باب میں راول دیس کے نوجوان غزل گو شاعر نوید ملک کی ’تاب دان‘ پیشِ نظر ہے، جس میں شعوری طور پر وہ لسانی تجربات سامنے لائے۔ مثلاََ، ان کے ہاں مقامیت بہ خوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ انھوں نے نہایت شائستگی کے ساتھ پوٹھوہاری زبان کے لفظ ’’یرا‘‘ کو از حد قرینے سے ردیف بنایا۔ مذکور لفظ دوست کو بے تکلفی سے پکارنے کے لیے مستعمل ہے۔ اشعار دیکھیے:
چھوڑو الجھنا سب سے کنارا کرو یرا
دنیا ہے چار دن کی گزارا کرو یرا
کہتے ہو کارِ عشق میں کچھ بھی نہیں گراں
مشکل نہیں یہ کام تو سارا کرو یرا
دریا کا سینہ چاک کروں یا کہ دشت کا
میں ہوں تمھارے ساتھ اشارا کرو یرا
نوید ملک کے ہاں اپنے تئیں اظہار کی ازسرِنو کوشش موجود ہے۔ نئے مفاہیم کے حامل لفظیات کے علاوہ الفاظ کی بناوٹ و سجاوٹ بھی ان کی مشقِ سخن کا حصہ ہے۔ الفاظ سازی کی مثال ان کے قوافی سے بہ خوبی عیاں ہے کہ ان کے ہاں مہمان سے مہمانتا اور انسان سے انسانتا ایسے الفاظ التزام کے ساتھ مستعمل ہیں:
بقا کی منزلوں تک لے کے جائے
کسی کو عشق جب مہمانتا ہے
جکڑتی ہیں مری شاخیں ہوائیں
ہر اِک لمحہ مجھے زندانتا ہے
بکھر جاتے ہیں خدوخال میرے
مجھے یہ آئنہ انسانتا ہے
الجھتے ہیں بھنور ہر روز مجھ سے
سمندر کیوں مجھے طوفانتا ہے
’’ہم کو سارا کام مکانا پڑا تو پھر؟‘‘ ایسا مصرع نوید ملک کے ہاں علاقائی و ثقافتی رنگ بہ خوبی ظاہر کر رہا ہے، جس میں ’’مکانا‘‘ کا لفظ خوبصورتی کے ساتھ برتا گیا ہے۔ مقامی الفاظ کے علاوہ ان کے ہاں انگریزی الفاظ کا برتائو بھی عام ہے اور وہ ایسے لفظوں کو پِروتے چلے جاتے ہیں۔ اس پہ مستزاد ایسی تراکیب بھی زیرِ استعمال ہیں جو پوٹھوہاری اور پنجابی زبانوں میں عام ہیں۔ مثلاََ انگریزی الفاظ کے علاوہ ’’کھاتے میں‘‘ کا بہ طورِ ردیف استعمال دیکھیے:
فائلیں کھلیں گی جب، یارا ہر زمانے کی
سب چراغ آئیں گے، روشنی کے کھاتے میں
کیا کریں تعلق کا کھول کر رجسٹر ہم
کچھ بھی تو نہیں لکھا، روشنی کے کھاتے میں
سورجوں کا آڈٹ بھی ہو گیا مکمل جب
ایک بھی نہ تھا جگنو، تیرگی کے کھاتے میں
لسانی تجربات کے علاوہ فنی اور عروضی نقطۂ نظر سے بھی ’تاب دان‘ ایک نمایاں حیثیت اس طورسے رکھتی ہے کہ اس میں بنیادی اور مستعمل اوزان و بحور شامل ہیں جن میں عموماََ طبع آزمائی کی جاتی ہے۔ نوید ملک نے’ تاب دان‘ میں کل پندرہ اوزان کو پیشِ نظر رکھا ۔ سب سے زیادہ کلام بحرِ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف بروزن معفول فاعلات مفاعیل فاعلن موجود ہے، جن کی تعداد سترہ ہے۔
اسی طرح بحرِ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع بروزن فاعلاتن فعِلاتن فعلاتن فعلن تیرہ جبکہ بحرِ مجتث مثمن مخبون محذوف بروزن مفاعلن فعلاتن مفاعلن مفلن بارہ غزلیات کہی ہیں۔ علاوہ ازیں بحرِ خفیف مسدس مخبون محذوف (فاعلاتن مفاعلن فعلن)،بحرِ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف (مفعول مفاعیل مفاعیل مفولن) اور بحرِ ہزج مسدس محذوف (مفاعیلن مفاعیلن فعولن) میں بھی خاصی غزلیات کہی ہیں۔ ایک ایک، دو دو غزلیات دیگر اوزان پر بھی شاملِ کتاب ہیں۔ یہ سبھی رواں اور مترنم بحور ہیں۔ البتہ! انھوں نے کسی مشکل یا دقیق بحر میں کلام نہیں کہا۔نوید ملک کی تخلیقی اور فنی اپج ان کی علمی و ادبی قامت کو متعین کر رہی ہے۔ جہانِ فکر اس کے سوا ہے۔ جدید غزل کے باب میں، وہ بلاشبہ جدا آواز کے ساتھ نمودار ہوئے ہیں۔ روزِ آئندہ، ان کی یہ آواز ایک بازگشت کے رُوپ میں دکھائی دے رہی ہے۔
تاب دان میں فنی و لسانی تجربات
Nov 20, 2022