وہ کیاہے جس کی پردہ داری ہے۔؟


آج ملکی سیاست پر نظر یں دوڑایں تو ہمیں دکھائی دے گا کہ جیسے اس ملک کی تمام قوتیں ملکر ایک اکیلے عمران خان کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ،قیام پاکستان کے بعد وزارت خارجہ میں توشہ خانہ بنایا گیا جسے 1973 ءمیں کابینہ ڈویژن کے تحت کر دیا گیا تب سے کابینہ ڈویژن میں توشہ خانہ کا شعبہ چلا آ رہا ہے، مگر اس توشہ خانہ کا جس بے دردی سے استعمال کیا جاتارہاہے اور دنیا بھر سے ملنے والے تحائف کو جس طرح سے باپ داداکی ملکیت سمجھا جاتارہاہے اس پر شاید کبھی اتنا شور پہلے نہیں مچایا گیا جتنا کہ ایک گھڑی کو لیکر آج کل کانوں پڑی آوازسنائی نہیں دے رہی ہے ،سابق وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ روز توشہ خانہ میں سے گھڑی بیچنے کے الزام پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہینڈلرز کی حمایت سے ایک مقامی نیوز چینل اور اس کے اینکر نے بے بنیاد کہانی کے ذریعے مجھ پر 
بہتان لگایا ہے۔ ایسا لگتاہے کہ حکومت نے صحافت کی تمام اکائیوں کو ہی عمران خان کے خلاف خرید لیاہے ، نیوز چینلوں کو دیکھیں تو ہمیں محسوس ہو گا کہ جیسے اس ملک میں اب معاشی صورتحال جڑسے ختم ہوچکی ہے اس ملک میں بے روزگاری ،مہنگائی اور لاقانونیت کا مسئلہ کب کا حل ہوچکاہے اگر کوئی مسئلہ اس ملک میں ہے تو وہ عمران خان ہے، لیکن ایک چیز اور بھی دکھائی دے گی اور وہ ہے عوام کی طاقت جو اس وقت عمران خان پر اندھا اعتبار کیئے ہوئے ہیں وہ اپنے کپتان پر لگنے والے کسی بھی الزام کو ماننے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے ۔ عوام یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ عمران خان پر لگنے والا ہر الزام سیاسی اور بے بنیادہے ،قائداعظم عظیم رہنما ءاور ایک بہترین لیڈر تھے جنہوں نے اپنی انتھک محنت اور مستقل مزاجی سے ناممکن کو ممکن کر دیکھایا کیونکہ ان کے ساتھ عوام کھڑی تھی انہیں کافر اعظم تک کہاگیا،آج جوالزمات عمران خان پر ہیں اس سے تو وہ آئندہ چند روز میں نکل جائینگے اصل آزادی تواس ملک کوشریفوں اورزرداریوں سے نجات دلاناہے،جس طرح قائداعظم نے انگریزوں اور ہندوسورماﺅں سے اس ملک کو آزاد کروایا تھا مگرابھی تک ان کے غلام اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے نسل درنسل غلام اس ملک پر قابض ہیں ۔عمران خان پر لگنے والے الزام پر فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ اس گھڑی کی قیمت کا تعین کابینہ ڈویژن نے 10 کروڑ روپے کے قریب کیا اور رولز کے تحت قیمت کا 20 فیصد ادا کر کے یہ گھڑی توشہ خانہ سے عمران خان کی ملکیت میں چلی گئی تھی ،جبکہ عمران خان نے عمر ظہور نام کے کسی شخص کو یہ گھڑی نہیں بیچی نہ ہی یہ گھڑی بیچنے کے لیے فرح گجر کے حوالے کی گئی ،قانون کے مطابق حکومت پاکستان کے اہم عہدیداران کو ملنے والے غیر ملکی تحائف کی رجسٹریشن کی جاتی ہے جس کے بعد ان تحائف کی قیمت کا تعین کر کے وہی شخص 15 فیصد رقم ادا کر کے حاصل کر سکتا ہے جسے یہ تحفہ ملا ہو 
پہلا حق اس شخص کا تصور کیا جاتا ہے،1980ءکی دہائی سے لیکرسال2013ءتک اقتدار میں رہنے والے وزرائے اعظم اورصدور کی جانب سے کل 3039تحائف کو معمولی قیمت کی ادائیگی کے بعد توشہ خانہ سے اپنے گھروں کی زینت بنایا جاچکا ہے،تاریخ بتاتی ہے کہ نوازشریف کو اپنے پہلے دوادوار میں بیرونِ ممالک سے کل 127تحائف موصول ہوئے۔ نوازشریف ان میں سے 75 قیمتی اور انمول تحائف کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے انہوں نے صرف 14 لاکھ میں یہ تحائف اپنے پاس رکھ لیے تھے۔جنرل پرویز مشرف کو اپنے دورِ حکومت میں دیگرممالک سے کل520تحائف موصول ہوئے تھے۔مشرف ان میں سے515تحائف اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔ مشرف نے بیرون ملک سے ملنے والے ان تحائف میں سے صرف 5 تحائف توشہ خانہ میں جمع کرائے۔شوکت عزیز توشہ خانہ سے 1126تحائف اپنے ہمراہ لے گئے تھے، میرظفراللہ خان جمالی کو بطوروزیراعظم بیرونِ ممالک سے کل110تحائف ملے تھے میرظفراللہ جمالی نے ان تحائف کو اپنی ملکیت میں رکھنے کیلئے صرف تین لاکھ روپے کی ادائیگی کی تھی۔سابق صدر رفیق تارڑکو بطور صدرِ پاکستان کل74تحائف موصول ہوئے تھے جن کی مالیت 11لاکھ روپے تھی۔ وہ ان میں سے73تحائف کو صرف ایک لاکھ42ہزارروپے کی ادائیگی کی ،بینظیر بھٹو کو اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دونوں ادوار میں بیرونِ ممالک سے کل 630تحائف موصول ہوئے تھے۔ بینظیربھٹو نے ان تحائف میں سے174کو اپنی ملکیت میں لیا اور اس مقصد کیلئے انہوں نے دولاکھ72ہزار روپے کی رقم جمع کرائی تھی۔سابق صدرغلام اسحاق خان کو بیرونِ ممالک سے کل 89تحائف موصول ہوئے تھے۔ انہوں نے صرف67ہزار کی رقم کی ادائیگی کے بعد 88تحائف کو اپنی ملکیت میں لے لیاتھا،جنرل ضیاءالحق نے بیرون ممالک سے کل210تحائف موصول ہوئے تھے وہ ان میں 122تحائف کو اپنے ساتھ گھر لے گئے۔لیکن آج اس ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اور ان سابقہ حکومتوں کی باقیات کے لوگ دل کھول کر عمران خان کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں،جس وقت پی ڈی ایم حکومت کے لوگ ملکر عمران خان کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی میں مصروف تھے اس وقت ان کے وزیراعظم شہباز پر برطانیہ کی ایک عدالت پر چارج شیٹ پڑھ کر سنائی جارہی تھی جس کی منظر کشی یہ ہے کہ شہباز شریف صاحب سرجھکاکرجج کے سامنے بیٹھے ہیں اور کے لیے جو الفاظ بولے جارہے ہیں وہ یہ ہیں کہ "مسٹر شہباز شریف آپ نے پاکستان کے زلزلہ زدگان کی بیرونی امداد کا غلط استعمال کیا، لیکن وہ جج یہ نہیں جانتاتھا کہ یہ رپورٹ تازہ ترین ہے جو ان تک پہنچی ہے یہ خاندان تو اس ملک کا کونا کونا بیچ کر کھاگئے ہیں،ایک خاندان تو شریف خاندان ہے اور دوسرا خاندان زرداری صاحب کا ہے ان دوخاندانوں پر عمران خان کا موقف یہ ہے کہ ان 2 خاندانوں کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک نیچے گیا اور 75 فیصد چانس ہے کہ ملک ڈیفالٹ کر جائے گا۔اور یہ بات کسی حدتک درست بھی ہے عمران خان حکومت نے دو سال میں ن لیگ حکومت کا چھوڑا 19.2 ارب$ کرنٹ اکا¶نٹ خسارہ ختم کرکے 950 کروڑ منافع میں بدل دیا تھاسال 19ئ-2018ءمیں سابقہ حکومت نے 3 ہزار 842 ارب کا ٹیکس جمع کیا تھا۔ موجودہ حکومت نے متعدد مرتبہ ٹیکس کے بڑے بڑے اہداف رکھے مگر انہیں پورا کرنے میں ناکام رہی’جب ملک کے جاری کھاتوں کرنٹ اکا¶نٹ کا خسارہ بہت زیادہ بڑھ جائے اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہوں اور اس کے مقابلے میں بیرونی قرضے کی قسطیں اور ان پر سود کی ادائیگی ایک مسئلہ بن جائے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے ک طرف بڑھ رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ اب صاف ظاہر ہونے لگاہے پاکستان میں یہ خطرات اب صاف دکھائی دے رہے سری لنکا 61فیصد پرڈیفالٹ کرگیاتھا جبکہ پاکستان 75فیصد پر پہنچ چکاہے ،ان تمام باتوں کو عوام کی نظروں سے اوجھل کرنے کا یہ بہانہ ہے کہ عمران خان کے اس معاملے کو خوب اچھالوہر ایک کوخرید لو،لوگ ارشدشریف شہید کا کیس بھول جائیں ،لوگ اعظم سواتی کے الزامات کو نظر اندازکردیں،لوگ عمران خان پر قاتلانہ حملہ کے بارے میں گفتگو نہ کریں اور سب سے بڑھ کر ملک میں سائفر کی تحقیقات کو لٹکادیاجائے اب یہ سب کچھ نہیں تو بتایاجائے کہ آخر کیاہے جس کی پردہ داری ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن