گوہر ایوب خان کے انتقال کی خبر سنی تو پہلے افسوس اور بعدازاں یہ خیال بہت دیر تک ذہن میں سمایا رہا کہ کچھ شخصیات کے بارے میں ان سے ملے بغیر ہی آپ شدید تعصب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ گوہر صاحب کے ساتھ میرا ایسا ہی سلسلہ رہا تھا۔
ہوا یوں کہ میرا گھرانہ اور پرانے شہر لاہور میں اس کے دوست ایوب خان کے شدید مخالف تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اندرون شہر کے خوش حال لوگوں کی اکثریت فیلڈ مارشل کی شخصیت سے بہت متاثر تھی۔ ان کی زبانی یہ دعویٰ تواتر سے سننے کو ملتا کہ لیاقت علی خان کی وفات کے بعد ہمارا کوئی سیاستدان ملک کو سنبھالنے کے قابل ثابت نہ ہوا۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف سیاستدانوں نے وطن عزیز کو مستحکم حکومت سے مسلسل محروم رکھا اور اس کی وجہ سے ہم اقتصادی ترقی کے لئے کوئی سمت بھی طے نہیں کر پائے۔سیاستدانوں کے خود غرض اور غیر ذمہ دارانہ رویے سے تنگ آکر بالآخر فیلڈ مارشل ایوب خان نے اکتوبر1958ءمیں ”انقلاب“ برپا کردیا۔اس کی بدولت 1962ءمیں ایک ”آئین“ کا نفاذ ہواجس نے ”صدارتی نظام“ کی بدولت پاکستان کو استحکام ہی نہیں بلکہ سرعت رفتاری سے معاشی ترقی کے راستے سے بھی روشناس کروادیا۔ میرے سکول میں اساتذہ بھی نصابی کتابوں کے ذریعے مجھے ایسا ہی پیغام دیتے تھے۔
نو سے دس سال کی عمر کے درمیان پھنسے میرے لئے بہت مشکل تھا کہ اپنے گھرانے کے خیالات کو درست سمجھوں یا اس کی مخالف رائے کو تسلیم کروں۔ دریں اثناء1964ءآگیا۔اس برس صدارتی انتخاب کا اعلان ہوا اور قائد اعظم کی ہمشیرہ جنہیں ہم احترام سے ”مادرِ ملت“ پکارتے تھے ایوب خان کے مقابلے میں کھڑی ہوگئیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی امیدوار بن جانے کے بعد قائد اعظم سے وابستہ تقدیس کی بدولت ایوب خان میری دانست میں ہر حوالے سے ”غلط“ شمار ہونا شروع ہوگئے۔ محترمہ کا انتخابی نشان لالٹین تھا اور میں اسے سوتے ہوئے بھی اپنی قمیض سے ہٹانے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔
1962ءکے آئین کے تحت صدر کا انتخاب عوام کے براہ راست ووٹوں سے نہیں ہوتا تھا۔عوام آج کے پاکستان میں 40ہزار کے قریب ”بلدیاتی نمائندے“ چنا کرتے۔ یہ نمائندے ہی صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے کے حقدار تھے۔ صدر گویا براہِ راست نہیں بلکہ بالواسطہ انداز میں منتخب ہوتا تھا۔ بالواسطہ اور براہ راست کے فرق کو جانے بغیر میں یہ سوچنے سے قطعاََ قاصر تھا کہ ”عوام “بانی پاکستان کی ہمشیرہ کو ایوب خان کے مقابلے میں شکست سے دو چار کریں گے۔انتخابی نتائج نے مگر میری بچگانہ سوچ کو شدید دھچکا لگایا۔ بات وہاں ختم نہ ہوئی۔افواہیں یہ بھی پھیلنا شروع ہوگئیں کہ ”بلدیاتی نمائندوں“ کو پولیس نے ایوب خان کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کو مجبور کیا۔ کراچی میں اگرچہ لیاقت آباد اور ناظم آباد کے ”بلدیاتی نمائندے“ جھکنے کو تیار نہیں ہوئے۔ ان سے ”بدلہ“ لینے کے لئے ایوب خان کی ”فتح“ کا اعلان ہونے کے بعد ایک جلوس نکالا گیا۔ فتح کا جشن مناتا یہ جلوس لیاقت آباد میں داخل ہوا تو ایوب خان کے ایک فرزند گوہر ایوب خان نے فضا میں پستول سے گولیاں برساتے ہوئے وہاں کے باسیوں کو دہشت زدہ کرنے کی کوشش کی۔
1964میں میرے وہم وگماں میں بھی نہیں تھا کہ ایک روز میں صحافی بن کر اسلام آباد منتقل ہوجاﺅں گا اور بطور صحافی 1985ءسے مجھے قومی اسمبلی کی کارروائی کا مشاہدہ کرتے ہوئے اس کی بابت پریس گیلری والا کالم بھی لکھنا ہوگا۔ بہرحال گوہر ایوب خان 1985ءمیں غیر جماعتی بنیادوں پر قائم ہوئی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔اس کے اجلاس شروع ہوئے تو قومی اسمبلی کے اراکین کو ایک مراسلہ ”نامعلوم افراد“ کی جانب سے پراسرارانداز میں ملنا شروع ہوگیا۔ اس کے ذریعے 1964ءکے صدارتی انتخاب کے بعد گوہر ایوب خان کی مبینہ ”بدمعاشی“ تفصیل سے یاددلائی جاتی۔میرے بچپن کی یادوں کے زخم اس کی وجہ سے ”ہرے“ ہوگئے۔بطور صحافی مگر ذہن میں یہ سوال مچلنا شروع ہوگیا کہ ”وہ کون ہے“ جو کئی برس گزرجانے کے بعد 1985ءمیں گوہر ایوب خان کی ذات سے 1964ءمیں منسوب ہوئے قصے قوم کو یاد دِلارہا ہے۔
مذکورہ سوال نے تجسس کی جو آتش بھڑکائی اس کی بدولت کافی مشقت کے بعد یہ دریافت کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ گوہر ایوب خان کا پراسرار انداز میں ”جمہور دشمن“ ماضی کیوں یاد دلایا جارہا ہے۔پاکستان ان دنوں برطانیہ سے نیوی کے لئے کچھ فریگیٹ یا چھوٹے جہاز خریدنا چاہ رہا تھا۔ گوہر ایوب خان کا خیال تھا کہ پاکستان کو وہ دفاعی اعتبار سے ہرگز درکار نہیںہیں۔ انہیں خریدنا غریب ملک کی دولت سفاکی سے ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔ اپنی سوچ کو پھیلانے اور اس پر اصرار کرنے کے لئے وہ قومی اسمبلی کے وقفہ سوالات کے دوران تسلسل سے اس معاملے کو زیر بحث لانے کی کوشش کرتے۔ متعدد بار تحریک التوا وغیرہ کے ذریعے حکومت کو مجبور کرتے کہ وہ قومی اسمبلی کو بتائے کہ پاکستان کو مذکورہ فریگیٹ کن ٹھوس دفاعی تقاضوں کی بنیاد پر درکار ہیں۔ گوہر ایوب خان کے اٹھائے سوالات کو حکومت حسب روایت ”حساس دفاعی معاملہ“ ٹھہراکر نظرانداز کرنے کی کوشش کرتی۔
گوہر ایوب خان کی ثابت قدمی نے بالآخر برطانیہ کے ساتھ زیر غور ایک بھاری بھر کم دفاعی سودے کو مشکوک بنادیا۔معاملہ اس حد تک بگڑا کہ غالباََ ہماری تاریخ میں پہلی بار اسلام آباد میں مقیم صحافیوں کی کثیر تعداد کو راولپنڈی میں آئی ایس پی آر کے دفتر بلاکر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔اس کے ذریعے ہمیں آگاہ کرنے کی کوشش ہوئی کہ مجوزہ سودا پاکستان کے دفاع کے لئے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔مذکورہ بریفنگ کے بعد اسلا م آباد میں یہ افواہیں بھی پھیلنا شروع ہوگئیں کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے فرزند ان دنوں کسی اور ملک کے بنائے فوجی اسلحے کو پاکستان کے لئے خریدنے کی راہ بناکر اپنا دھندا چلاتے ہیں۔سادہ زبان میں اس دھندے کو ”لابنگ“ کہا جاتا ہے۔یہ افواہ پھیلی تو میں نے جوان رپورٹر کی بھرپورتوانائی کے ساتھ اس کی تصدیق ڈھونڈنے کی کوشش کی۔گوہر ایوب خان کی ذات کے بارے میں بچپن سے دل ودماغ میں جمع ہوئے تعصب کے باوجود میں اس ضمن میں کوئی ٹھوس شہادت ڈھونڈنے میں قطعاََ ناکام رہا جو ثابت کرتی کہ گوہر ایوب خان کسی ذاتی غرض کی بنا پر ایک دفاعی سودے کو متنازعہ بنارہے تھے۔
جنرل ضیاءکی آمرانہ چھتری تلے ابھری ”غیر جماعتی“ بنیادوں پر منتخب ہوئی قومی اسمبلی کی کارروائی کا مشاہدہ کرتے ہوئے نوجوان رپورٹر نے بلکہ پاکستان کے پہلے فوجی آمر کے فرزند کی ثابت قدم پیش قدمی سے یہ سیکھا کہ منتخب ایوانوں کا ”وفقہ سوالات“ کتنا اہم ہوتا ہے۔ عوام کے منتخب کردہ نمائندے اگر جمہوری نظام سے واقعتاً مخلص ہوں تو اس سہولت کے ذریعے عوام کو ”حساس ترین“ معاملات کے بارے میں بھی ہمہ وقت باخبر رکھ سکتے ہیں۔
بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ ”آمریت کی نشانی“ تصور ہونے والے گوہر ایوب خان جیسے افراد نے جس دلیری اور جرات کے ساتھ 1985ءکی قومی اسمبلی میں منتخب ایوان کو مضبوط اور ریاست کے دیگر اداروں پربالادست ٹھہرانے کی جو روایتیں قائم کی تھیں وہ بتدریج ہمارے سیاسی منظر نامے سے عنقا ہونا شروع ہوگئیں۔اب سیاست اور صحافت فقط واٹس ایپ پر آئے احکامات کی غلام ہو چکی ہے۔