پیر مرید کے درمیان گفتگو

پچھلے کئی سالوں سے صاحبان علم و دانش سے گفتگو کے مواقع تلاش کرتا رہتا ہوں۔دو سا ل پہلے مسجد تاج مےں صاحبزادہ احمد علی سلطان کا بےان سننے کا شرف حاصل ہوا۔کہنے کو تو ےہ اےک بےان ،تقرےر ےا واعظ تھا لےکن مجھے اےسے محسوس ہوا کہ جےسے پےر اور مرےد کے درمےان گفتگو ہورہی ہو۔جےسے مجھ جےسے طالب علموں کے ذہن مےں کلبلاتے سوالات کے جواب دئےے جا رہے ہوں۔کئی بار خےال آےا کہ آستانے پر حاضری دےنے چلتے ہےں ۔حاصل لاحاصل کی خواہش مےںاےسا کئی بار ہوا کہ رات سوتے مےں خواب تھکا دےتے اور صاحبزادہ صاحب سے ملاقات اور گفتگو کی خواہش گےلی لکڑی کی طرح سےنے مےں سلگنے لگتی۔کہا جاتا ہے کہ بندہ جس چےز کی طلب کرے وہ اُسے مل جاتی ہے۔ جمعرات کو ہماری زندگےوں مےں ہمےشہ سے بڑی اہمےت رہی ہے۔گھرو ںمےں ختم پڑھے جاتے ہےں۔ مرحومےن کے اےصال ثواب کے لےے کھانے تقسےم کےے جاتے ہےں۔ من کی مرادےں پانے کے لےے د رباروں پر دئےے جلاتے جاتے ہےں۔جمعرات اور جمعہ کی درمےانی شب مرشد کا فون آےا راجہ صاحب! صاحبزادہ احمد علی سلطان صاحب کی طرف سے’گفتگوکی‘ دعوت آئی ہے۔تےاری پکڑ لےں کل جمعہ کے بعد ہم دربارسلطان باہو کے لےے نکل رہے ہےں۔ صاحبزادہ احمد علی سلطان سے گفتگو کی دعوت ملنے سے اےسی خوشی ملی جےسے بچپن مےںعےد کا چاند نکلنے کی خبر سن کر ہوا کرتی تھی۔مرشدی سعےد احمد تاج،پروفےسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک اور شےان عمر کے ہمراہ چار گھنٹے کے سفر کے بعد دربار حضرت سلطان باہو پہنچے تو خبر ملی صاحبزادہ صاحب ہمارے منتظر ہےں۔رات نو بجے پرتکلف کھانے کے پر گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا جو صبح کے چار بجے تک چلتا رہا۔چائے کے دور چلتے رہے۔ بات سے بات نکلتی رہی ۔ملکی و عالمی سےاسی منظر نامے کے حوالے سے بات شروع ہوئی تو صاحبزادہ صاحب نے فرماےاکہ قران مسلمان کو ذہےن دےکھنا چاہتا ہے۔ بندہ مومن وہی کہلا سکتا ہے جو دنےا مےں رونما ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھے اور اپنے اردگرد بسنے والے لوگوں کی بہتری کے لےے ہمہ وقت کمر بستہ رہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے حساب صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔ اسے زمین پر اپنا خلیفہ اور اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز عطا فرمایا ہے۔ اور اس کے درجات کو یہاں تک بلند فرما دیا ہے کہ وہ اللہ کے اوصاف کا آئینہ بن سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالٰیٰ کی اطاعت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرے۔انسان کامل یا مرد مومن پر ہی حقیقت کا راز منکشف ہوتاہے۔ اسلام کا حقیقی مقصود بہترےن انسان پیدا کرنا ہے۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال مرحوم نے ہمیشہ اپنی شاعری کے ذریعہ امت مسلمہ کو بیدار کرنے کی کوشش کی،ان کو ان کے مقام و مرتبہ اور فرض منصبی کا احساس دلایا،اور خاص طور پر امت کے نوجوانوں کو اپنا مخاطب بناےا۔علامہ اقبال نے کہا تھا۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
ہم نے سوال کےا کہ جناب عالی قدر! یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمان اخلاقی،سےاسی،سماجی اور معاشی مےدا ن مےں اغےار سے بہت پےچھے رہ گئے ہےں۔عام آدمی کے سامنے نہ کوئی رستہ ہے نہ منزل اور نہ کوئی بہتری کی اُمےد۔اےسا لگتا ہے جےسے ساری قوم ذہنی غلام بن چکی ہے۔سب جانتے ہیں کہ ذہنی غلام نہ تو اپنی سوچ رکھتا ہے اور نہ غلام کی کبھی اپنی کوئی مستند رائے ہوتی ہے۔وہ وقت اور حالات کے بہاو میں بہہ جاتا ہے۔صاحبزادہ صاحب نے فرماےا !ےہ وقت ہے ہم مےں سے ہی کوئی اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرے۔اپنے گھر،محلے اور جہاں جہاں ممکن ہے لوگوں کی اُمےد بنے۔حق بات کہنے کی کوشش کرے۔اجتماعی شعور کی بےداری کے لےے نوجوانوں کے ساتھ مکالمے کرے۔رےاست سے محبت اور امت سے وابستگی کو ہر حال مےںمقدم رکھنے کے لےے قول و قلم کا استعمال کرے۔قرآن سے رشتہ مضبوط کرے۔طلبا کوفکری اور سائنسی علوم کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جائے۔ علامہ اقبال نے نوجوانوں کو خودی کا پیغام دیا اور فرمایا کہ نوجوان خود شناسی سے خدا شناسی کا سفر طے کریں، اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں ۔ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ نوجوانوں کے خیالات بلند ہوں، انسان کامل اور مرد مومن بننے کی خواہش ان کے دل کے اندر موجود ہو۔اقبال کا شاہین مشکلات اور مصائب کا تندہی سے سامنا کرنے والا ہے۔ باد مخالف بھی اس کی پرواز میں کمی نہیں لا سکتی۔ ”بلند حوصلے سے وہ ناموافق“ حالات کے باوجود بھی اپنی خودی پر سمجھوتہ نہیں کرتا۔’خرد کو غلامی سے آزاد کرجوانوں کو پیروں کا استاد کر‘اقبال کو بلا کا ادرا ک تھا کہ نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہی مستقبل کی باگ ڈور ہے، اگر اسے صحیح معنی میں مہذب، باصلاحیت، تعلیم یافتہ اور روشن خیال بنا دیا جائے تو ہی آنے والا کل تابناک ہو گا۔اقبال نوجوانوں کو آبا و اجداد کے ورثے اور تہذیب کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہےں کہ 
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
گنوا دی تم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے تم کو ”دے مارا“
آج کے دور مےں ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو نہ صرف حضرت اقبال کے کلام سے روشناس کراےا جائے بلکہ اقبال کے شاہےنوں کے اندر اس طرح اعتماد پےدا کےا جائے کہ وہ زندگی کے ہر مےدان مےں کامےابی کے جھنڈے گاڑتے چلے جائےں۔ےہ نقطہ سمجھ لےنا ہے کہ تعلیم و تربیت سے ہی قومی تہذیب و ثقافت، اور اخلاقی اقدار و روایات پنپ سکتی ہیں۔ہمارے مثبت رویے لوگوں کی فکری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔جبکہ تعصب و تنگ نظری اور منافقانہ طرز عمل ہمارے معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کیے جارہا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...