“بدحواس اور بے سکون انسان کیلئے شافی “

مصنف اعظم پرور دگارنے انسانو ں کیلئے ان کی نصابی کتاب قرآن حکیم میں لکھ دیا ہے ”واللہ ± ی±رید± ظلماً للعلمین“یعنی اللہ انسان پر ہر گز ظلم نہیں کرتا۔ وہ اپنے اوپر خود ظلم کرتا ہے"۔ نسان نے نہ صرف انسان پر ظلم کیے ہیں بلکہ خالق کائنات کی ساخت پر بھی بڑ ے ظلم کیے ہیں۔کرہ عرض پر سجے خوبصورت سمندروں کے دل چیر کر ان میں ایٹمی آبدوزیں رکھ دی ہیں۔لہلہاتے سبزہ زاروں کی بنیادوں میں ایٹمی کھاد ڈال دی ہے۔ خوبصورت پہاڑوں کو زمین کے چہرے کے پھوڑے سمجھ کر ان کی کازمیٹک سرجری کر دی ہے۔ گنگناتے چشموں اور آبشاروں کے خوشی کے آنسوغم کے آنسوسمجھ کر پونچھ رہے ہیں۔ آسمان کے دوپٹے پر ٹکے چاند ستارے نوچ لیے ہیں۔ترقی کے نام پر کرہ عرض و سمائ کو انسان نے جس طرح لوٹا ہے ایسے مجرم پر فرد جرم عائد ہو چکی ہے۔جنگوں اور بدا عمالیوں کی صورت میں شکر ہے جس استغاثہ کی طرف سے یہ فرد جرم عائد ہوئی ہے وہ بہت طاقتور مطلق اعلیٰ ہے۔ جج بھی خود ہے وکیل بھی خود ہے۔ پھر یہ مقدمہ کیسے داخل دفتر ہوسکتا تھا یاآیئنی زبان میں فی الحال محفوظ رکھا جاسکتا تھا۔انسان کی ترقی قابل تعریف ہے۔ اگر حضرت سلیمان نے اپنی روحانی طاقت کے ایندھن سے اپنا تخت ہوا میں اڑا لیا تھا تو موجودہ انسان نے بھی اپنے ہاتھ کی مادی طاقت سے بھاری بھرکم ہوائی جہاز اڑا لیا ہے۔سائنسدان بھی معجزات کی پچھلی صف میں ہی سہی، بیٹھنے کا حق رکھتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ انسان نے زندگی کی گاڑی میں صرف ایکسیلریٹر پر ہی اپنا پاﺅں جما دیا ہے باقی سارے گیئرز بے کار سمجھ کر چھوڑ دیے ہیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ ایسا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے جس میں کوئی جسمانی نقصان نہیں ہوا صرف ذہنی اور روحانی وجود لہولہان ہو کر سڑکوں پر بکھر گئے ہیں۔ کسی کو ابھی تک توفیق نہیں ہوئی کہ ان لہولہان وجودوں کو مارنے والوں کے خلاف پرچہ کٹوائے۔دانشور سیاستدان اور علما ءسبھی کے سبھی ان لہولہان وجودوں پر نظریں بچا کر اپنی اپنی گاڑیا ں بھگا کر لے جارہے ہیں۔دانشور اپنے اپنے چینل کی صف ماتم پر بیٹھے غریبوں اور لاچاروں کے لیے بآواز بلند بین کر رہے ہیں۔ لیکن ا ن کی رہائش گاہوں میں عیش و عشرت کے وہ وہ عجائبات موجود ہیں اور ایسے ایسے قیمتی چرند پرند اور جانور موجود ہیں کہ ان پرندوں کی غیر ملکی غذا کو جمع کر لیا جائے تو سینکڑوں غریبوں کے پیٹ کی آگ بجھائی جاسکتی ہے۔لیکن ان سب کی آنکھوں میں ایسے کنٹیکٹ لینز فٹ ہیں کہ وہ آگ انہیں نظر ہی نہیں آتی بلکہ سینک تک نہیں آتا۔ علماءکرام تو صرف شریعت کاا عشاری نظام ہی سنبھالے ہوئے ہیں کہ نما ز کے وقت شلوار کا پانچا کتنے انچ اوپر ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ٹی وی جو اب ٹی بی بیماری کی طرح لوگوں کے رگ و پے میں سرایت کر گیا ہے، کیا علماءکرام نے کبھی اس کے خلاف بھی کچھ ارشاد فرمایا ہے۔ بلکہ وہ تو اس کی چھاﺅں تلے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔صابن کی 50روپے کی ٹکیا کے اشتہار میں ایک ماڈل نوجوانوں کو گھسیٹ کر باتھ روم کی طرف لے جاتی ہے۔ کیا میرے کسی عالمِ دین نے ان کا ہاتھ بھی پکٹر کر پیچھے گھسیٹا ہے۔ اگر انسان کے لیے ان کی ساخت میں بیماری کا عنصر ہے تو ساتھ ہی خدا وند تعالیٰ نے شفا ءکے نسخے بھی بھیجے ہیں۔آج سے سینکڑوں سال پہلے بھی شفاءکے نسخے موجود تھے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ حکیم لقمان ایسے حکیم تھے کہ انہیں مختلف بیماریوں کے علاج بصور ت اَلقا موصول ہو جاتے تھے اور جب وہ جنگلوں میں علاج کے لیے جڑی بوٹیاں ڈھونڈنے جاتے تو جڑی بوٹیاں انہیں خود بول کر بتا دیتی تھیں کہ میں فلاں بیماری کا علاج ہوں۔
 خالق نے انسان کے آمد کے ساتھ ہی اپنی مخلوق کے حالات اور ضروریات کے مطابق ہر معاملے کا علاج بھی بھیج دیا تھا جسمانی کے لیے بھی اور روحانی کے لیے بھی مگر انسان اس سارے معاملے میں اپنی کاریگری اور فنکاری کو زیادہ کاری سمجھنے لگ گیا۔بہرحال آج کچھ ادویات نمبر وار لکھ رہی ہوں جیسے ڈاکٹر دواﺅں کے نا م اپنے نسخہ میں لکھتا ہے۔ میں سپشلسٹ ڈاکٹر ہونے کی دعویدار نہیں ہوں۔عطائی ڈاکٹر سمجھ لیں لیکن میں نے یہ عطائی ڈگری چونکہ قرآن حکیم سے حاصل کی ہے اسی لیے قارئین خوفزدہ نہ ہوں کیونکہ عطائی ڈاکٹر وں کے بارے میں سب واقفیت رکھتے ہیں۔ بہر حال اس نسخہ شافی پر عمل کر دیکھیں آپ جلد صحت یاب ہو جائیں گے :(1)اپنے آپ کو خالق کائنات کے ساتھ پوری ایمانداری کے ساتھ و ابستہ کر لیں کیونکہ وہ اپنی مخلوق کے تمام معاملات کا ذمہ دار ہے جس طرح ایک باپ اپنی اولاد کے تمام معاملا ت کو سنبھالنے کا ذمہ دا ر ہوتا ہے۔ بڑی جرات اور خود اعتمادی سے اپنے خالق سے اپنے مسائل بیان کریں اور کہیں کہ ہم اس کے حل کا حق رکھتے ہیں۔(2)دولت اور درجات کے حصول میں جتنی زیادہ دوڑ بھاگ کریں گے تھک جائیں گے یا گر کر اپنا کوئی عضو تڑوا بیٹھیں گے۔ انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ ان دونوں چیزوں کے پیچھے بھاگنے والے یا تو کسی کاری بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں یا جلد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ کئی مثالیں آپ کو اپنے اردگرد مل سکتی ہیں۔دوڑ بھاگ کی یہ بدحواسی انسان سے سب کچھ چھین لیتی ہے دولت بھی اور درجات بھی۔ پھر وہ بدحواسی کی وجہ سے ان چیزوں سے لطف اندوز ہی نہیں ہوسکتا۔ میری ا یک دوست کے والد صاحب کے بارے میں مجھے پتہ چلا کہ وہ ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ میں انہیں پوچھنے گئی تو وہ چپ چاپ بیٹھے ہوئے تھے ان سے بات کرنے میں بھی وہ مجھے کچھ زیادہ بے توازن محسوس نہیں ہوئے۔ میں نے دوست سے کہا یہ باتیں تو کسی حد تک صحیح کر رہے ہیں آپ کو کیسے اندازہ ہوا کہ یہ ذہنی طور پر بے توازن ہوگئے ہیں۔ کہنے لگی یہ بے توازن نہیں یہ صریحاً پاگل ہیں کیونکہ یہ قمیض کی جگہ شلوار اور شلوارکی جگہ قمیض پہن کر باہر آجاتے ہیں۔ شلوار کے پائنچے بازوو¿ں میں ڈال لیتے ہیں اور قمیض کی آستین کمراور پیٹ پر باندھ لیتے ہیں۔ مگر باتیں کچھ حد تک ٹھیک کرتے ہیں۔اس دوست کی باتیں سن کر سوچ رہی تھی بس آج کا انسان میری دوست کے والد کی طرح کا ذہنی مریض ہے۔ باتیں صحیح کرتا ہے مگر ہوس و خواہشات میں حواس باختہ ہوکر شلوار کی جگہ قمیض اور قمیض کی جگہ شلوار پہنے ہوئے ہے۔

ای پیپر دی نیشن