فوج کو بھی بولنے کا حق دیں(2)

Nov 20, 2023

سکندر خان بلوچ

اس کالم کا مقصد اپنے قارئین کو بتانا ہے کہ موجودہ دور کا سولجر جنگِ عظیم والا سولجر ہر گزنہیں۔موجودہ دور کا پاکستانی سولجر بہت باشعور اور معقول حد تک پڑھا لکھا ہے۔انگریز دور میں فوجیوں کو تین چیزوں پر بات چیت کی پابندی تھی۔اول مذہب ،دوم سیاست اور سوم عورت۔قانون اب بھی وہی ہے لیکن موجودہ دور کا سولجر اخبار باقاعدگی سے پڑھتا ہے۔ٹی وی باقاعدگی سے دیکھتا ہے۔ٹی وی پر خبریں اور تجزئیے سنتا ہے اور اپنی رائے قائم کرتا ہے۔ وہ فوج کا قومی ترقی میں کردار، سیاستدانوں کا کردار اور اپنے وطن کے مستقبل کے متعلق ایک عام تعلیم یافتہ شہری کی طرح سوچتا ہے۔لہٰذا ا±سے ان پڑھ شہری سمجھ کر قومی ترقی اور معاشرتی ترقی سے دور رکھنا قومی جرم ہوگا۔وہ بھی بولنے کی اجازت چاہتا ہے۔آئیں ذرا 1958ءکے سیاسی حالات کا جائزہ لیں جب فوج نے پہلا مارشل لاءلگایا۔
 الطاف گوہر صاحب ایوب خان کیساتھ ایک طویل عرصہ تک سیکرٹری رہے۔ انہوں نے اپنی مشہور کتاب ایوب خان۔ فوجی راج کے پہلے دس سال میں لکھا ہے : ”قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں فوج اقتدار کے کھیل کا حصہ نہیں تھی مگر جب 1951ءمیں ایوب خان فوج کے کمانڈر انچیف بنے اور انہوں نے فوج کی تنظیم نو کی اور سخت تربیت کے ذریعے اِسے ایک پیشہ ور دفاعی قوت بنا دیا تو سیاستدانوں نے اپنی بقائ کے لئے اس پر انحصار کرنا شروع کر دیا۔“ الطاف گوہر صاحب رقم طراز ہیں: ”ایوب خان کا اقتدار پر قبضہ کوئی ناگہانی حادثہ نہیں تھا بلکہ اس کے پسِ منظر میں سیاسی بصیرت اور عوامی حمایت سے محروم خود غرض سیاستدانوں کی بد اعمالیاں اور ان کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا ایک پورا سلسلہ موجود تھا۔“
 ہمارے معززسیاستدانوں نے جمہوری عمل کو ایک بازاری عورت بنا کر رکھ دیا۔ باری باری تین بیوروکریٹ محض محلاتی سازشوں سے سر براہ ِحکومت بنے۔ یہ محترم لوگ تھے۔ چوہدری محمد علی، ملک غلام محمد اور میجر جنرل (سول بیورو کریٹ) اسکندر مرزا۔ حد تو یہ ہے کہ ملک غلام محمد جیسا شخص جو جسمانی طور پر مفلوج اور ذہنی طور پر نیم پاگل تھا کئی سال تک جمہوریت کے نام پر حکومت کرتا رہا۔ جمہوریت کی پہلی عدالتی انصاف کشی بھی اسی کے دور حکومت میں کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان جمہوریت کی پٹڑی سے اس طرح سے اترا کہ آج تک دوبارہ نہیں چڑھ سکا۔ موصوف کا ذاتی لالچ پاکستان کے جمہوری مستقبل کو ہمیشہ کے لئے تاریک کر گیا۔ مزید یہ کہ ان عزت مآب سیاستدانوں نے جمہوریت کے اس بے دردی اور بے عزتی سے پر خچے اڑائے کہ پاکستان کی آزاد تاریخ کے پہلے دس سالوں میں سات وزیر اعظم بدلے گئے۔ اور ہمارا جمہوری نظام پوری دنیا میں مذاق بن کر رہ گیا۔ بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے ہمارے جمہوری نظام کا مذاق اڑاتے ہوئے برملا کہا کہ ”میں نے اتنی دھوتیاں نہیں بدلیں جتنے پاکستان نے وزیر اعظم بدلے ہیں۔“ بھلا اس سے زیادہ ہمارے جمہوری نظام کی بے عزتی کیا ہو سکتی تھی۔ پاکستان سمگلروں کی جنت بن گیا اور قاسم بھٹی جیسے مشہورسمگلر نا صرف اربوں روپوں کے مالک بنے بلکہ بادشاہ گر بھی بن گئے۔ان کی مرضی کے بغیر نہ کوئی وزیر اعظم بن سکتا تھا اور نہ کوئی آفیسر کراچی یا اہم محکموں میں تعینات ہو سکتا تھا۔ مہاجرین کی بحالی کا مسئلہ ایک وبائی صورت اختیار کر گیا۔ اس مسئلے سے ہر شخص نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ لوٹ مار کا وہ بازار گرم ہوا کہ جس کے ہاتھ میں جو کچھ آیا قابض ہو گیا۔ شریف اور معزز لوگ دردر کی ٹھوکریں کھانے لگے۔ اس لوٹ مار میں سب سے زیادہ مستفید کچھ چالاک اور موقعہ پرست قسم کے سیاستدان ہوئے۔ عوام پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہو گئے ہر طرف بددلی، پریشانی اور افراتفری کا عالم تھا۔ لوگ اس حد تک مایوس تھے کہ انہیں یہ بھی یقین نہ ہوتا کہ آج سوتے وقت جو وزیر اعظم ہے آیا کل صبح جاگنے پر وہی وزیر اعظم ہوگا یا نہیں۔
 یہ تھی 1958ءکے جمہوری نظام کی ایک جھلک۔ کیا یہ حالات فوج کے پیدا کردہ تھے؟ کیا یہ سب کچھ فوج کا کیا دھرا تھا؟ ملک تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا۔ ملک کے قحبہ خانے آباد ہو گئے لیکن یہ تمام عرصہ تو فوج لاتعلق رہی اور ہمارے معزز جمہوریت پسند سیاستدانوں نے جمہوریت اور حکومت کا یہ حشر کر دیا۔ یہ جمہوریت محب وطن پاکستانیوں کے لئے ایک مستقل عذاب کی شکل اختیار کر گئی۔ جو لوگ اس دور سے گزرے ہیں صرف وہی اس ”میوزیکل چیئرز“ قسم کی جمہوریت کا بتا سکتے ہیں۔ ہمارے ان جمہوریت پسند سیاستدانوں نے اگلا قدم یہ اٹھایا کہ خلاف ِآئین ایک حاضر سروس جرنیل کو وزیر دفاع بنا دیا۔ پھر کچھ ہی دنوں بعدا یک جمہوریت پسند صدر نے حاضر سروس جرنیل کی کارکردگی سے خوش ہو کر اسے ملک میں مارشل لاءلگانے کا حکم دیا اور یہ حکم آج تک GHQ کی فائلز میں موجودہے۔ یہ دونوں عمل آئین کا قتل تھا۔ ہم فوج کو تو مورد الزام ٹھہراتے ہیں لیکن ان جمہوریت پسند قائدین کے خلاف کیا کارروائی کی گئی جنہوں نے صریحاً آئین کو توڑا۔ دنیا میں کہاں جمہوری حکومت میں حاضر سروس جرنیل کو وزیردفاع بنایا جاتا ہے اور پھر مارشل لاءکی دعوت دی جاتی ہے۔ کس مقصد کے تحت یہ سب کچھ کیا گیا؟ کیا یہ آئین سے غداری نہ تھی؟ کیا فوج نے یہ آئین توڑنے کا کہا تھا۔ نہیں ہرگز نہیں۔ ان حضرات نے یہ سب کچھ اپنی حکومت اور اپنی ذاتی حکمرانی کو بچانے کے لئے کیا۔ ظاہر ہے جب حکومت فوج نے سنبھال لی تو وہ ان کرپٹ اور نا اہل سیاستدانوں کو کیوں واپس دے گی۔ اگر شیر کے سامنے گوشت پھینکا جائے تو پھر اس سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ گوشت کھائے گا نہیں۔ میرے خیال میں آئین کے ساتھ غداری پر کچھ سر کٹنے چاہئیں تھے۔ پھانسیاں لگنی چاہئیں تھیں اور جیلوں میں لوگ بھیجنے چاہئیں تھے تا کہ یہ مسئلہ ا±سی وقت حل ہو جاتا اور آئندہ کسی کو ایسا کرنے کی جرات نہ ہوتی ،لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا، آئین سیاستدانوں نے توڑا لیکن بد نام فوج ہوئی۔ یہ ہے پاکستانی طریقہ انصاف۔ میں یہ بھی یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب مارشل لاءآیا عوام نے شکرانے کے نوافل ادا کئے۔ مٹھائیاں بانٹی گئیں اور خوشی کے عام مظاہرے ہوئے۔ ان معز ز سیاستدانوں یا قحبہ خانے والی جمہوریت سے نجات پر عوام نے ہر طرف خوشیاں منائیں۔ اور تو اور، محترمہ فاطمہ جناح جیسی عظیم ہستی نے بھی اسے ایک خوش آئند قدم قرار دیا تو ان حالات میں فوج کو نجات دہندہ سمجھنا چاہیے یا مجرم۔ یہ فیصلہ غیر جانبداری اور ایمانداری کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ کوئی کیوں نہیں دیکھتا کہ فوج نے آتے ہی بڑے بڑے سمگلرز پکڑے اور مہاجرین کی بحالی جیسا گمبھیر مسئلہ بھی حل کر دیا۔
       (جاری ہے۔)

مزیدخبریں