دعوت دینے والے کو چاہیے کہ وہ کسی رنگ و نسل ، قوم اور فرقے کی دعوت نہ دے بلکہ صرف اور صرف دین کے احکام ہر نسل ، ہر قوم اور ہر فرقے تک پہنچائے۔ حالات جیسے بھی ہوں دین الٰہی کو مکمل اور صحیح انداز میں لوگوں تک پہنچائے۔ کوئی بھی کام ہو اگر اس میں تسلسل جاری نہ رہے تو اس سے پوری طرح نتائج حاصل نہیں ہوتے۔حضور نبی کریم ﷺ سے عرض کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کو کونسا عمل پسند ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : جس پر دوام کیا جائے اگرچہ وہ عمل کم ہی کیوں نہ ہو۔ دعوت کا کام بھی تسلسل سے جاری رہنا چاہیے۔ لگاتار جدو جہد کرتے رہنا ہی کامیابی کا راز ہے۔ انسان جب بھی کوئی کام کرتا ہے اس میں مشکلات آتی ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :” پس مشکل کے ساتھ آسانی ہے بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ زندگی میں مشکلات اور پریشانیوں کا آنا ایک فطری عمل ہے۔ اگر یہ ہی مشکلات عبادت الٰہی میں آئیں تو بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔داعی کو بھی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، لوگوں کی باتیں سننا پڑتی ہیں ، بدنی مشقتیں اٹھانا پڑتی ہیں۔ لیکن داعی کو چاہیے کہ ان مشکلات کو برداشت کرے اور دعوت دین کا کام جاری رکھے۔ دعوت کی راہ میں باتیں سننا ، دیوانہ کہلانا ، اپنوں سے دور ہونا اور پردیس میں پتھر کھانا حضور ﷺکی سنت مبارکہ ہے۔ اور یہی مشکلات آدمی کو اللہ تعالیٰ کا محبوب بندہ بنا دیتی ہیں۔ مومن کی یہ شان ہے کہ وہ دین کے معاملے میں کوئی نرمی نہیں دکھاتا اور کسی بھی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ ارشاد باری تعالی ہے : ” وہ منکروں پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں “۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل کی تباہی اسی وجہ سے ہوئی کہ جب کوئی آدمی کسی کو برے کام کرتے دیکھتا تو اسے کہتا کہ اللہ سے ڈرو اور اس کام کو چھوڑ دو۔ پھر جب وہ دوسرے دن اس کو ملتا تو جب ا سے کوئی برائی کرتے دیکھتا تو اس کو منع نہیں کرتا تھا اور اسی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے سب کے دل ایک جیسے کر دیے۔ دعوت اس وقت اپنا اثر دکھاتی ہے جب داعی با عمل ہو۔ اگر داعی بے عمل ہو گا تو اس کی دعوت ایک رسم بن جائے گی اور اس کی بات لوگوں کے دلوں میں نہیں اترے گی۔حضور ﷺ نے فرمایا : تم لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہو۔ کیا تم سمجھتے نہیں۔