اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے انٹرویو کی مزید تفصیلات کے مطابق انہوں نے کہا کہ ہماری ترجیح ہے کہ جلد از جلد الیکشن ہوں۔ ہم چاہتے ہیں عوام اپنا مینڈیٹ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو مینڈیٹ دیں۔ ہم چاہتے ہیں ایک الیکٹڈ حکومت آئے اور اپنی ذمہ داریاں سنبھالے۔ ہم نے ایسا کون سا کام کیا ہے کہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ہم کسی فریق سے متعلق جانبدار ہیں۔ میری وفاداری ریاست کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ افغانستان میں پشتونوں سمیت ہر ایک کیلئے یکساں احترام ہے۔ افغان ریاست سے متعلق میرے بیان کو مختلف انداز میں پیش کیا گیا۔ میرے پشتون ہونے کی کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ پاکستان اور افغانستان کو ایمانداری سے سوچنا چاہئے کہ وہ ایک دوسرے سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔ افغان حکومت جانتی ہے ٹی ٹی پی کہاں موجود ہے۔ دو سال پہلے مذاکرات کا ڈھونگ رچا تو وہ افغانستان میں ہی تھے۔ افغان طالبان جانتے ہیں ٹی ٹی پی پاکستان کیخلاف کہاں سے کارروائیاں کرتی ہے۔ فیصلہ افغان طالبان کریں ان کیخلاف کارروائی کرتے ہیں یا ہمارے حوالے۔ ٹی ٹی پی چاہتی ہے باقی پاکستان ان کا طرز زندگی اختیار کرے۔ باقی پاکستان کہتا ہے اپنے انداز میں زندگی جیئں گے۔ مختلف مکاتب فکر کے علماءسے آرمی چیف کی ملاقات ہوئی۔ دو سے تین گھنٹے تک ملاقات میں تفصیلی بات چیت ہوئی۔ علماءنے حکومتی اقدامات کی حمایت کی۔ آرمی چیف نے کئی بار کہا ایک پاکستانی کی زندگی کی حفاظت بھی ہمارا فرض ہے۔ برداشت نہیں پاکستان کیخلاف کارروائیاں ہوں اور افغان طالبان تماشا دیکھتے رہیں۔ ٹی ٹی پی وسط ایشیائی ریاستوں میں نہیں افغان سرزمین پر موجود ہے۔ پاکستان ہمارا گھر ہے۔ افغان ہمارے پاس مہمان آئے ہیں انہیں واپس جانا ہے۔ کسی کو ریاست سے مذاکرات کرنا ہے تو سب سے پہلے ہتھیار پھینکیں۔ ہتھیار اٹھانے کا جواز ہی ناجائز ہے۔ جب ہتھیار چھوڑیں گے تب سوچا جائے گا کب اور کیسے مذاکرات کئے جائیں گے۔ کوئی سمجھتا ہے بندوق کی نوک پر مذاکرات کریں گے تو یہ غلط فہمی جتنی جلدی ہو سکے دور کر لیں۔ ہمارا خیال تھا امریکہ اور دیگر قوتوں کا گھر افغانستان نہیں ہے۔ گھر کی قوت ان کو گھر سے نکالنا چاہتی ہے۔ پاکستان ایک گھر ہے جو میرا ہے اور ٹی ٹی پی بھی اس کو شیئر کرتی ہے۔ کسی رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی پالیسی نہیں۔ غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔ ریاست کی ذمہ داری لیتے ہیں تو مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ افغانستان کی جانب سے دہشتگرد عناصر کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہماری سکیورٹی فورسز دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کر رہی ہیں۔ افغان شہریوں کے ساتھ ہم نے بہتر رویہ اختیار کیا ہے۔ غیر قانونی طور پر مقیم افراد واپس جا کر قانونی طور پر واپس آئیں۔ موجودہ افغان طالبان حکومت کے بعد پاکستان آنے والے افغانوں کی کیٹیگری الگ ہے۔ ریاست کی ذمہ داری لیتے ہیں تو مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ دہشتگردی میں ملوث عناصر کی بیخ کنی کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ پاک چین سٹرٹیجک تعلقات کی تشریحات درست ہیں۔ چین چاہتا ہے ہماری طرف سی پیک کے دوسرے مرحلے کیلئے تعاون زیادہ ہو۔ کیا نگران حکومت نے سابق وزیراعظم کو جیل میں ڈالا ہے تو ہم ذمہ دار ہیں۔ یہ حکومتیں ہیں کوئی کریمنل گروہ نہیں۔ یہ غیر ذمہ دارانہ الزام ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں زہر دیا جا رہا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی محفوظ اور صحتمند ہیں۔ یہ غلط تاثر ہے کہ ایک پارٹی کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ 9 مئی کو جو کچھ ہوا سیاسی عمل قطعاً نہیں تھا۔ وہ توڑ پھوڑ اور جلا¶ گھیرا¶ تھا۔ جب آپ احتجاج کرتے ہوئے بندوق تھامے ہوئے فوجی کے پاس جائیں گے تو وہ جواباً گولی چلائے گا۔ فوج نے 9 مئی کو بہت تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا۔ الیکشن ہونے جا رہے ہیں کسی کو شکایت ہے تو اس کیلئے متعلقہ فورم، عدالتیں ٹربیونلز ہوں گے ۔