حساس سہولت کار کانسٹیبل کی گرفتاری

Nov 20, 2024

سعد اختر

سعد اختر 
hassas_f@yahoo.com
یہ20جنوری 2023ءکی ایک ٹھنڈی اور چمکتی ہوئی دوپہر تھی۔ پولیس لائنز پشاور میں سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ ظہر کا وقت قریب تھا۔ پولیس لائنز کے اہلکاروںکی اکثریت سفید پارچا ت میں نماز کے لیے لائنز کی مسجد کا رخ کر رہی تھی۔ جہاں اب تک نمازیوں کی کافی تعداد جمع ہو چکی تھی جن میں یونیفارم پہنے کافی پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ تاہم کوئی نہیں جانتا تھا کہ سیکورٹی کے اس مضبوط ترین حصار کے باوجود لائنز کی مسجد میں تھوڑی ہی دیر بعد دہشت گردی کا ایک اندوہناک واقعہ پیش آ جائے گا۔
یہ واضح رہے کہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر ملک بھر کے سرکاری دفاتر میں سیکورٹی اور چیکنگ کے نظام کو مزید سخت اور مو¿ثر بنایا گیا ہے۔ تاہم سیکورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دفاتر اور ہیڈ کوارٹرز میں سیکورٹی کے بہت ہی غیر معمولی انتظامات دیکھنے میں آتے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے تمام مرکزی شہر چونکہ دہشت گردی کا غیر معمولی ہدف ہیں اور نسبتاً یہاں زیادہ دہشت گردی ہوتی ہے۔ اس لیے تمام ڈویژنل پولیس ہیڈ کوارٹرز اور پولیس لائنز کو سیکورٹی کے مضبوط ترین حصار میں رکھا جاتا ہے۔
لیکن 20جنوری 2023ءکو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ پشاور پولیس لائنز میں ہونے والا دہشت گردی کا واقعہ مسجد میں 90جانیں لے جائے گا۔ 100سے زیادہ نمازی شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچ جائیں گے۔ 
پولیس لائنز میں کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی۔ پرائیویٹ شخص کسی سے ملاقات کرنا چاہتا ہے تو ملاقات پر کوئی قدغن نہیں۔ تاہم ملاقاتی، استقبالیہ پر شناخت کے بعد لائنز میں داخل ہو سکتا ہے۔
20جنوری کی دوپہر تھی اور پشاور پولیس لائنز افغان خودکش بمبار کے خودکش حملے کا نشانہ بننے والی تھی۔ یہ خودکش بمبار افغان بارڈر کے راستے غیر قانونی طور پر وقوعہ سے کچھ ہی روز قبل پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ خودکش حملہ آور کی ساری ٹریننگ افغانستان کے پہاڑوں میں و اقع دہشت گردی کے کیمپوں میں ہوئی تھی۔ خودکش حملہ آور کو پشاور پولیس لائنز میں داخلے اور اپنے ہدف تک پہنچنے کے لیے محفوظ سہولت کاری میسر تھی۔ خودکش بمبار پولیس وردی میں اپنے سہولت کار پولیس کانسٹیبل محمد ولی کے ہمراہ اُسی کی موٹر سائیکل پر پولیس لائنز میں داخل ہوا اور اپنے ہدف تک پہنچا۔
حملہ آور کے پاس دس کلو بارودی مواد تھا جو اُس نے جسم کے مختلف حصوں میں چھپا رکھا تھا۔ بارود میں فاسفورس کی بھی خاصی مقدار شامل تھی۔ پولیس لائنز میں سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات ہونے کے باعث لائنز کی مسجد کے مرکزی دروازے پر کوئی مسلح اہلکار متعین نہیں تھا۔ خودکش بمبار بڑی آسانی سے مسجد میں داخل ہوا اور اچانک خود کو بلاسٹ کر لیا۔ دھماکہ اتنا شدید اور زور دار تھا کہ پولیس لائنز اور اسٍ کے گردونواح کے درودیوار ہل گئے۔ خودکش حملے کی خبر جیسے ہی عام ہوئی ، مقامی انتظامیہ حرکت میں آ گئی۔ سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ لاشیں اور زخمی اٹھانے کے لیے پولیس لائنز میں ایمبولینسز کی آمد شروع ہو گئی۔ اس دوران پشاور ہی نہیں، پورا ملک دکھ اور غم میں ڈوب گیا۔ پشاور کی مارکیٹیں اور بازار بند ہو گئے۔ لوگ زخمیوں کو خون دینے کے لیے ہسپتالوں کی طرف دوڑنے لگے۔
کانسٹیبل محمد ولی نے اس سہولت کاری کے عوض دو لاکھ روپے وصول کئے۔ پولیس میں بھرتی ہونے سے پہلے ولی کالعدم دہشت گرد تنظیم ”الاحرار“ کا باقاعدہ رکن تھا۔ تاہم ملازمت کے بعد بھی اُس نے ”الاحرار“ سے ناطہ نہیں توڑا۔ اُس کی تمام تر ہمدردیاں کالعدم تنظیم کے ساتھ رہیں۔ تنظیم کی جو بھی میٹنگ ہوتی، ولی اُس میں شرکت کرتا۔ ملازمت سے قبل ایک دفعہ افغانستان بھی گیا۔ جہاں ملزم کی تنظیم ”الاحرار“ کے کئی دہشت گردوں سے ملاقات ہوئی۔ ملزم پاکستان واپس آتے وقت افغان فورسز کے ہتھے بھی چڑھا۔ لیکن تنظیم کے فعال رکن جنید کی مداخلت پر اُسے رہائی مل گئی۔ الاحرار نے کانسٹیبل ولی کی اس طرح سے ذہن سازی کی تھی کہ تنظیم کے لیے ہر کام کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا۔
اگرچہ اب ایک پولیس اہلکار تھا۔ لیکن اُس کا دل اور دماغ تنظیم کے کاموں میں ہی اٹکا رہتا۔ پولیس لائنز کے ساتھی بھی بے خبر تھے کہ محمد ولی کن خفیہ پراسرار سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ پشاور پولیس کے ذرائع سے ملنے والی اب تک کی معلومات کے مطابق کانسٹیبل ولی نے سہولت کاری کے عوض دو لاکھ روپے لیے جس کی ادائیگی اُسے ”ہنڈی“ کے ذریعے کی گئی۔ ملزم ولی جنوری 2022ءمیں ایک پادری کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی ملوث پایا گیا۔ ملزم پشاور وارسک روڈ دھماکے میں بھی ملوث تھا۔
ملزم نے ابتدائی تفتیش میں بتایا کہ تنظیم ”الاحرار“ کے رکن جنید سے اُس کی دوستی فیس بک پر ہوئی۔ پھر ملنا جلنا بھی ہو گیا۔ جنید تنظیم کا سرگرم اور فعال رکن تھا۔ اُس کی گفتگو نے مجھے بہت متاثر کیا ، اس طرح سے میری ذہن سازی کی کہ میں نے ”الاحرار“ میں شمولیت اختیار کر لی۔ حلف دیا کہ تنظیم کے احکامات کی پابندی اور بجاآوری کروں گا۔
انٹیلی جنس رپورٹ پر ملزم ولی کو جمیل چوک رنگ روڈ سے پکڑا گیا۔ جب گرفتاری عمل میں آئی تو اُس کے قبضے سے دو خودکش جیکٹس بھی برآمد ہوئیں۔ گرفتاری کے بعد مزید انکشاف ہواکہ ملزم ولی بہت سے دہشت گردوں کو دھماکہ خیز مواد اور اسلحے کی ترسیل بھی کرتا رہا ہے۔
انسپکٹر جنرل پولیس پشاور اختر حیات گنڈاپور کا کہنا ہے ملزم محمد ولی دہشت گردی نیٹ ورک کا اہم حصہ تھا۔ جو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مشترکہ کاوشوں کے نتیجے میں پکڑ اگیا۔ ولی افغانستان میں موجود جماعت الاحرار کے ایک کمانڈر کے ساتھ بھی رابطے میں تھا۔ کمانڈر کی ہدایات پر دہشت گردی کے مزید ایک وقوعہ کی تیاری کر رہا تھا۔
ولی نے تفتیشی ٹیم کو اپنے ابتدائی بیان میں یہ بھی بتایا کہ جنید نے اسے کہا تھا کہ کمانڈر خالد خراسانی کی شہادت کا بدلہ لینا ہے اور کچھ بڑ اکام کرنا ہے۔ ولی کا مزید کہنا ہے جنوری 2023ءکے شروع میں اُس نے پولیس لائنز کے مختلف حصوں کی تصویریں اور لائنز کا نقشہ جنید کے ساتھ ٹیلی گرام پر شیئر کیا تھا۔ اس کے کچھ دنوں بعد میں جنید کے کہنے پر ایک شخص (حملہ آور) کو چرسیاں مسجد میں لے کر آیا۔ 30جنوری کو صبح 11بجے میں دوبارہ چرسیاں مسجد موٹر سائیکل پر گیا جہاں وہ حملہ آور خودکش جیکت اور پولیس کی وردی سمیت موجود تھا۔ میں اُسے رحمان بابا قبرستان لے کر آیا۔ یہاں اُسے پولیس کی وردی اور خودکش جیکٹ پہنائی ۔ پھر موٹر سائیکل پر بٹھا کر کوزی پل جی ٹی روڈ کے قریب چھوڑ دیا۔
پولیس لائنز مسجد میں خودکش حملے کے بعد عمر خراسانی نے ناصرف اس حملے کی ذمہ داری قبول کی بلکہ کہا ”یہ حملہ افغانستان میں مارے گئے خالد خراسانی کا بدلہ ہے“۔ جب کہ وقوعہ کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے مسجد حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم عام لوگوں اور مساجد پر حملے نہیں کرتے۔
اچھا ہوا پشاور پولیس لائنز مسجد میں خودکش بمبار کا سہولت کار کانسٹیبل ولی پکڑا گیا۔ ملزم کی گرفتاری انٹیلی جنس رپورٹ پر بہت پہلے عمل میں آ چکی تھی لیکن ولی کی گرفتاری کا انکشاف آئی جی خیبرپختونخوا اختر حیات گنڈاپور نے اب سے چند روز پہلے پشاور میں ایک خصوصی میڈیا ٹاک کے دوران کیا۔ اس انکشاف کے بعد بہت سے سوال کھڑے ہو گئے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے میں اگر محمد ولی جیسے اہلکار ہوں گے اور جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردی کے لیے دہشت گردوں کی سہولت کاری کریں گے تو ملک میں امن کیسے قائم رہے گا؟
قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اہل کاروں کی جانچ پڑتال کے لیے انٹیلی جنس کا ایک مو¿ثر اور مربوط نظام ہونا چاہیے۔ بھرتی ہونے والے کا حسب نسب کیا ہے۔ ذہنی اپروچ اور کس مکتبہ¿ فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ اُس کے رابطے کن لوگوں سے رہتے ہیں؟ یہ سب کچھ جاننا بہت ضروری ہے۔
اگرچہ فوج میں ضرور ایسا نظام موجود ہے کہ اگر کوئی افسر یا اہلکار مشکوک ہے۔ کسی سے رابطے میں رہتا ہے۔ تو خفیہ طور پر اُس کی نگرانی کی جاتی ہے۔ تحقیقات کے دائرے کو متعلقہ افسر یا اہلکار کو بتائے بغیر آگے بڑھایا جاتا ہے۔ شواہد ملنے پر حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ بعد ازاں فوجی افسر یا اہلکار کو کورٹ مارشل کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جو فوج میں سزا کا سخت ترین عمل ہے۔
پولیس بھی معاشرے میں نظم و نسق قائم کرنے کا اہم ادارہ ہے۔ اس میں کانسٹیبل ولی جیسی کافی بھیڑیں ہوں گی تو امن و امان کیسے قائم رہ سکتا ہے۔ لازمی امر ہے کہ فوج کی طرح پولیس میں بھی انٹیلی جنس کا ایسا نظام لائیں کہ ولی جیسے بے ضمیروں سے محکمہ پولیس کو نجات مل سکے۔


 

مزیدخبریں